پاکستانی قومی ترانہ ڈیجیٹل دور کی جدید موسیقی اور آوازوں کے ساتھ

پاکستان کے قومی ترانے کو 1954 کے بعد پہلی بار جدید آوازوں کے ساتھ باضابطہ ازسر نو ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ قیام پاکستان کی 75ویں سالگرہ کے موقعے پر اگلے سال یہ ترانہ پیش کیا جائے گا۔

پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار 13  اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے قومی ترانے کو 1954 کے بعد پہلی بار جدید آوازوں کے ساتھ باضابطہ ازسر نو ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس اقدام کا مقصد آرکسٹریشن اور ووکل رینڈرنگ کا اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیار یقینی بنانا ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے قومی ترانے کی جدید دور کی موسیقی کے ساتھ ریکارڈنگ  کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد  بنائی گئی سٹیئرنگ کمیٹی  کے اراکین نےگزشتہ روز سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر جاوید جبار کی زیرصدارت میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ایک رسمی اجلاس کے دوران قومی ترانے کی ازسر نو ریکارڈنگ پر تبادلہ خیال کیا۔ 

قومی ترانے کی ازسرنو ریکارڈنگ کے لیے بنی اس کمیٹی  کے  اراکین میں معروف موسیقار ارشد محمود، روحیل حیات، نفیس احمد، آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر پروڈکشن بریگیڈیئرعمران نقوی، فلم سیکٹر لیڈر ستیش آنند، سیکرٹری اطلاعات و نشریات شاہیرہ شاہد، ڈائریکٹرالیکٹرانک میڈیا اور پبلیکیشنز عمرانہ وزیر شامل ہیں۔ 

سٹیئرنگ کمیٹی  کے سربراہ، سابق سینیٹر اور وفاقی وزیر جاوید جبار نے بتایا کہ اگلے سال قیام پاکستان کی پچہترویں سالگرہ ہے، اس موقعے پر قوم کو ازسرنو ریکارڈ کیے ہوئے قومی ترانے کا تحفہ دیا جائے گا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں قومی ترانے کا نیا سنگ بنیاد ہوگا۔   

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں جاوید جبار نے بتایا ’پاکستان کا قومی ترانہ 1954 میں منظور ہوا۔ اس وقت موسیقی کے محدود ذرائع تھے اور قومی ترانے کی ریکارڈنگ کے لیے صرف 12 لوگوں کی آواز شامل کی گئی تھی۔ ان 60 سے زائد سالوں میں دنیا میں موسیقی میں جدت آچکی ہے۔ اس لیے اب یہ ضروری ہوگیا تھا کہ قومی ترانے کو ڈیجیٹل دور کی جدید موسیقی کے تحت خوبصورت بنا کر محفوظ کیا جائے۔‘

’مگر ایک بات بالکل واضح کرنا چاہتا ہوں کہ قومی ترانے کے بول تبدیل نہیں کیے جائیں گے اور ترانے کی جو موسیقی احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دی تھی اسے بھی نہیں چھیڑا جائے گا۔ قومی ترانے کو صرف ازسرنو ریکارڈ کیا جائے گا۔ قومی ترانے کی بنیادی کمپوزنگ کو بھی نہیں چھیڑا جائے گا۔‘

جاوید جبار کے مطابق پاکستان میں موسیقی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کوئی باضابطہ آرکسٹرا موجود نہیں ہے جیسے ترکی جاپان اور دیگر ممالک میں باضابطہ آرکسٹرا ہوتے ہیں۔ اس لیے عام طور پر پاکستان میں کسی بھی ریکارڈنگ کے لیے پاکستان آرمی، نیوی یا پولیس بینڈ کی مدد لی جاتی ہے۔ 

’قومی ترانے کی ازسر نو ریکارڈنگ کے لیے پاکستان کے بہترین موسیقاروں کے ساتھ پاکستان آرمی، نیوی کے بینڈ کے علاوہ ضرور پڑی تو پاکستان کے دوست ممالک، مثال کے طور پر ترکی کے آرکسٹرا کی مدد لی جائے گی جب کہ دوبارہ ریکارڈنگ کے لیے چاروں صوبوں، گلت، بلستان اور آزاد کشمیر کے 120 سے 150 سریلے فنکاروں کو شامل کیا جائے گا تاکہ فیڈریشن اور ملک کے تمام حصوں کی قومی ترانے میں مناسب نمائندگی ہو سکے۔‘ 

اس کے علاوہ ترانے کی نئی وڈیو ریکارڈنگ بھی کی جائے گی۔ 

 پاکستان کے قومی ترانے کی تاریخ  

قیام پاکستان کے دو سال بعد اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یکم مارچ 1949  کو آئین ساز اسمبلی کی ترانہ کمیٹی تشکیل دی تاکہ یہ کمیٹی قومی ترانے کی دھن بنوانے کے ساتھ اس دھن پر شاعری ترتیب دلوا سکے۔  

ترانہ کمیٹی کی جانب سے اخباری اور ریڈیو اشتہارات کے ذریعے ملک بھر سے شعرا کو اپنی شاعری اور موسیقاروں کو دھنیں بھیجنے کو کہا گیا جس کے بعد کمیٹی کو ملک کے ہر کونے سے قومی ترانے کی دھنیں اور ترانے موصول ہونا شروع ہو گئے۔ ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 200 سے زیادہ نظمیں اور 63 کے لگ بھگ دھنیں موصول ہوئیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان تمام دھنوں میں سے ملک کے مشہور اور منجھے ہوئے موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ المعروف احمد جی چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن کو قومی ترانہ کمیٹی نے حتمی طور پر منتخب کر لیا۔ قومی ترانے کی یہ دھن پہلی مرتبہ ایران کے سربراہ مملکت رضا شاہ پہلوی کی پاکستان آمد پر یکم مارچ 1950 کو سرکاری سطح پر پیش کی گئی۔ یہ کسی بھی غیر ملکی سربراہِ مملکت کا پاکستان کا پہلا سرکاری دورہ تھا۔ 

بعد ازاں حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو قومی ترانے کے طور پر منظور کیا گیا۔ باضابطہ طور پر پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار 13  اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا۔

ریڈیو پاکستان کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق قومی ترانے کی صدا بندی میں جن 12  گلوکاروں نے حصہ لیا ان میں رشیدہ بیگم، نجم آرا، احمد رشدی، اختر وصی علی، شمیم بانو،  نسیمہ شاہین،  زوار حسین، اختر عباس، غلام دستگیر، انور ظہیر اور کوکب جہاں شامل تھے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان