’امریکی لابی افغانستان شکست کا ملبہ بذریعہ بل پاکستان پر ڈالنے کو تیار‘

مجوزہ بل کے مطابق پہلی رپورٹ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ بشمول حکومت پاکستان وہ کون سے سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز ہیں جنہوں نے 2001 سے لے کر 2020 کے دوران طالبان کی مدد کی۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں 27 ستمبر 2021 کو کانگریس نے اپنے مکمل شیڈول کے مطابق کام کا آغاز کر دیا ہے اور زیر التوا قوانین پر کام شروع کر دیا ہے (تصویر: اے ایف پی)

امریکی سینیٹ میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کا مقصد طالبان اور افغانستان میں ان کی مدد کرنے والے افراد پر پابندیاں عائد کرنا ہے جس میں ممکنہ طور پر پاکستان بھی شامل ہوسکتا ہے۔

اس مجوزہ بل میں کہا گیا ہے کہ منظوری کے 180 دنوں کے دوران امریکہ کے سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری دفاع اور نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر کے مشورے سے کانگریس کی کمیٹی کےسامنے ایک رپورٹ جمع کرائیں گے جس میں طالبان کو مدد فراہم کرنے والوں کی تفصیل ہوگی۔

مجوزہ بل کے مطابق پہلی رپورٹ میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ بشمول حکومت پاکستان وہ کون سے سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز ہیں جنہوں نے 2001 سے لے کر 2020 کے دوران طالبان کی مدد کی۔

مجوزہ بل کے مطابق رپورٹ میں اس بات بھی جائزہ لیا جائے گا کس نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں، مالی مدد، انٹیلیجنس معلومات، طبی سہولیات اور رسد فراہم کی، انہیں مسلح کیا اور حربی و انتظامی یا تزویراتی سمت کا تعین کرنے میں مدد فراہم کی۔

امریکی کانگریس میں پیش کیے جانے والے مسودے کے مطابق رپورٹ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے کہ بشمول پاکستانی حکومت کن سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز نے 2021 میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد فراہم کی۔

امریکی کانگریس کے مجوزہ بل میں جو رپورٹ مانگی گئی ہے اس میں اس بات کا جائزہ لینے کو بھی کہا گیا ہے کہ بشمول پاکستانی حکومت کے کن سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز نے ستمبر 2021 کے وادی پنج شیر پر طالبان حملے اور مزاحمت کے خلاف طالبان کی مدد کی۔

اسلامی جمہوریہ افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹنے والے طالبان کے 2021 کے حملے کی حمایت کو کم کرنے کے لیے کی جانے والی امریکی سفارتی اور فوجی سرگرمیوں کی تفصیلی رپورٹ بھی اس مجوزہ بل کی منظوری کے بعد پیش کی جائے گی۔

اسی بل میں امریکہ کی جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے کے تناظر میں رپورٹس مانگی گئی ہیں۔

مسودے کے مطابق: ’ان علاقوں کی نشاندہی جہاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی حکومت عوامی جمہوریہ چین، روسی فیڈریشن اور طالبان کی طرف سے درپیش معاشی اور سکیورٹی چیلنز سے نمٹنے کے لیے مناسب طور پر بھارتی حکومت کے ساتھ سفارتی، معاشی اور دفاعی تعاون کو مستحکم بنا سکتی ہے۔‘

اس کے علاوہ اس بات کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ طالبان کے افغانستان پر قبضے کے نتیجے میں بھارت کی سکیورٹی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیاں بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کو کس طرح متاثر کریں گی۔

اس معاملے پر اپنا موقف پیش کرتے ہوئے پاکستان کی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹویٹ کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’پاکستان کو ایک بار پھر امریکہ کی ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ میں اتحادی بننے کی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے کیونکہ امریکی کانگریس میں افغانستان سے جلد بازی میں کیے جانے والے انخلا، اشرف غنی کی فلائٹ کے بعد ایک بل متعارف کرایا گیا ہے۔

کانگریس میں پیش کیے جانے والے مجوزہ بل کا تجزیہ کرتے ہوئے بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کے اندر ایک لابی ہے جو یہ معلوم کرنا چاہتی کہ افغانستان میں اسے شکست کیوں ہوئی اورانہیں اس کے لیے ایک اسکیپ گوٹ (قربانی کا بکرا) چاہیے اور اس کا اشارہ اس بل کے ذریعے پاکستان کی طرف جاتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رفعت حسین کا کہنا تھا کہ بل منظور ہونے کی صورت میں جو رپورٹس مانگی گئی ہیں ان میں وادی پنج شیر پر حملے میں طالبان کی مدد کرنے والی و الی شق خاصی اہم ہے جس کے پاکستان پر اثرات پڑسکتے ہیں۔

انہو ں نے کہا کہ ’اس بل کی منظوری سے دوحہ مذاکرات پر منفی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ امریکہ نے جو پابندیاں طالبان پر لگائی ہوئی ہیں امریکہ اس سے زیادہ اور کیا پابندیاں لگائے گا۔‘

ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ پاکستان کو اس بل کی مخالفت میں متحرک ہونا پڑے گا اور اس کے لیے اسے کوکس کو اپنی حمایت میں متحرک کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بین الاقوامی امور کے ماہر نے کہا کہ ’یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا بل کو متعارف کس نے کرایا ہے؟ کیا یہ وہی لوگ ہیں جو پاکستان کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں یا پھر اس بل کو بائی پارٹیزن یعنی متفقہ طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔ اگر یہ متفقہ طور پر متعارف کرایا گیا ہے تو منظور ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہیں اور پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔‘

ڈاکٹر رفعت حسین کے مطابق وینڈی چیمبرلین پاکستان آرہی ہیں تو پاکستان کو ان کے سامنے یہ معاملہ اٹھانا چاہیے اور بہت سخت احتجاج کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ فی الحال یہ بل امریکی کانگریس میں متعارف کرایا گیا ہے جسے مشاورت کے بعد ووٹنگ اور منظوری کے عمل سے گزرنا ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ