امریکہ کی بے سمت شرق اوسط پالیسیاں

شرق اوسط سے ہٹائی جانے والی میزائل شکن پیٹریاٹ بیٹریاں خطے میں ایران سے ہونے والے میزائل حملوں کے راہ میں سد جارحیت تھیں۔

‘امریکہ کو دنیا کی حکمرانی کرنا ہے‘، دراصل صدر بائیڈن کی انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ تھا(اے ایف پی)

ان دنوں امریکہ کی حیران و پریشان کرنے والی حرکات وسکنات کا ختم نہ ہونے والا تماشہ دنیا پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔ ٹرمپ دور کی بونگیاں یا حالیہ صدر جو بائیڈن کی وعدہ خلافیاں، عراق، افغانستان اور نائن الیون کو لمحے بھر کے لیے اگر فراموش بھی کر دیں تب بھی آپ کو ایسے واقعات کی بھرمار ملے گی جسے دیکھ کر امریکہ کے محیر العقول کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس کالم نگار کو بھی تشویش ہے کہ اولین عالمی طاقت [امریکہ] صدر جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے نعروں کی روشنی میں عرب ملکوں کے ساتھ کون سا کھلواڑ کرنے جا رہی ہے۔ ’امریکہ کو دنیا کی حکمرانی کرنی ہے‘، دراصل صدر بائیڈن کی انتخابی مہم کا مرکزی نعرہ تھا۔ اس انتخابی نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انکل سام کو شرق اوسط سے متعلق پالیسی میں تبدیلی لانی ہو گی۔

یورپ، پیسفک میں اتحادیوں کے ساتھ نئی صف بندی کے لیے امریکہ خود کو ایڈجسٹ کرے۔ اس مقصد کے لیے واشنگٹن کو نیٹو کے ہاتھ مضبوط کرنے کے ساتھ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان، جنوبی کوریا، انڈو پیسفک کے ساتھ اتحاد کی بھی حمایت کرنا ہو گی۔

اس عام فہم بات کو سمجھنے میں مشکل ہوئی تو امریکہ کے اندر معاملات کو درست ٹریک پر لانے کے لیے کئی ادارے موجود ہیں۔ واشنگٹن اگر یہ مرحلہ سر کرنے میں ناکام رہا تو وہ اپنا راستہ تبدیل کر لے گا، جیسا کہ 20 برسوں کے دوران ہونے والے انتخابات کے دوران ہوتا چلا آیا ہے۔

موجودہ صورت حال سے ملنے والا پہلا اور واضح  پیغام یہی ہے کہ امریکہ نے گذشتہ 20 برسوں میں رونما ہونے والے واقعات کا مطلوبہ عقل مندی اور کھلے ذہن کے ساتھ سامنا نہیں کیا۔ عراق اور افغانستان پر حملے امریکہ کی فاش غلطی تھی۔

اس سے بڑی کوئی اور غلط سوچ نہیں ہو سکتی کہ دنیا کو امریکی نظریات اور سوچ کی روشنی میں چلایا جا سکتا ہے۔ یہ سوچ اپنی جگہ غلط  ہے کہ فکری اور ادارہ جاتی حوالوں سے ’جمہوریت‘ سب ہی ملکوں کے لیے سازگار طرز سیاست بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امریکی تناظر میں جمہوریت بجائے خود ایک بیمار نظام بنتا جا رہا ہے۔

ان سب باتوں کے جلو میں امریکہ نے حکمت سے عاری جو اقدامات اٹھائے، ان میں دو کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے میزائل شکن پیٹریاٹ بیٹریوں کا ہٹایا جانا امریکہ کی پہلی غیر معقول حرکت تھی۔

خطے میں لگائی گئی پیٹریاٹ بیٹریاں دراصل ایران سے کیے جانے والے میزائل حملوں کے راہ میں سد جارحیت کا کام کر رہی تھیں۔ امریکہ نے دوسری حماقت کا ارتکاب مصر کو دیے جانے والے سالانہ 130 ملین ڈالرز فوجی امداد بند کر کے کیا۔

مصر کی فوجی امداد منجمد کرتے وقت امریکہ کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ عربوں کے مشترکہ مفاد کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے حال ہی میں وہ خود مصری سرزمین پر ہونے والی ’برائٹ سٹار‘ فوجی مشقوں میں داد شجاعت دے چکا ہے۔

امریکہ کی پہلی حماقت سے متاثر ہونے والی مملکت [سعودی عرب] کے ساتھ واشنگٹن کے پانچ دہائیوں پر محیط تعلقات تھے جن کا براہ راست تعلق ان مشترکہ مفادات سے رہا ہے جن کا مقصد خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنانا تھا۔

مذکورہ بالا دونوں اقدامات نے امریکہ کے قومی مفاد میں چنداں اضافہ نہیں کیا۔ یہ اقدامات ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے امریکی خارجہ پالیسی کے مقابلے میں نظریات کے سامنے سپر انداز ہونے کے رحجان کی غمازی کرتے ہیں۔

امریکہ کے ان اقدامات سے دونوں ملکوں کی دفاعی صلاحتیوں پر کسی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ نہ ہی اس سے مصر کی اقتصادی صلاحیت کو گزند پہنچا۔ دونوں ملکوں نے گذشتہ چند برسوں کے دوران دور رس نتائج کی حامل اصلاحات کے ذریعے دفاع اور معیشت کے میدان میں شاندار کامیابی حاصل کی۔

امریکی اقدامات سے واشنگٹن کی صفوں میں داخلی تقسیم سے پیدا ہونے والی کھلبلی کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ انکل سام عرب ملکوں میں پائی جانے والی صلاحتیوں کو سمجھنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔

آج کے ’بین الاقوامی آڈر‘ کے تناظر میں امریکہ اور چین کی مسابقت میں واشنگٹن کو اپنی کامیابی کا واثق یقین خطرناک رحجان ہے۔ مبالغے پر مبنی اس سوچ کا سچائی سے دور دور کا تعلق نہیں۔ امریکی ریاستی اداروں کو پہنچنے والے نقصان کے اثرات آنے والی کئی دہائیوں تک ظاہر ہوتے رہیں گے۔ امریکہ اگر متبادل مواقع تلاش کر بھی لیتا ہے تب بھی نقصان کا تخمینہ 4  سے 9 کھرب ڈالرز کے درمیان لگایا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ صرف امریکی پالیسیوں کی معاشی قیمت ہے۔ امریکی فیصلہ سازی کی قوت پر اس کے کیا اثرات ہوں گے، ان کا اندازہ فی الحال لگانا مشکل ہے۔ ایک عرصے تک ’سافٹ پاور‘ امریکہ کی شناخت رہی ہے۔ سیاست، انتخاب، ادارہ جاتی تعاون میں کمی، نسل پرستی میں اضافہ اور فاشزم  سے امریکہ کا سارا حسن ماندہ پڑتا جا رہا ہے۔

امریکہ کے برعکس چین نے قدامت پسند رحجان کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کی ترویج کو یقینی بنایا ہے۔ چین کے اس رحجان کو دنیا میں اکثر ملک پسند کرتے ہیں۔ ملک میں معاشی اور سیاسی مرکزیت سے متعلق سوچ کے فروغ کے لیے چین حکمران جماعت کیمونسٹ پارٹی کو استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی وہ معیشت، سیاست اور انتظامی امور پر بھاشن دینے کے خمار میں مبتلا ہے۔

بیجنگ اس وقت 3.2 کھرب ڈالرز کے مالیاتی ریزرو کا مالک ہے، جس میں 1.4 ٹریلین دست گرداں ہیں۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے چینی ماڈل کو اختیار کرنے میں کئی فوائد مضمر ہیں۔

دوسری جانب امریکہ کو بین الاقوامی طور پر استعمال ہونے والی اس کی اپنی کرنسی میں 28 کھرب کے قرض کا سامنا ہے جبکہ وہ 3.5 کھرب ڈالرز خرچ کر کے اپنے بنیادی ڈھانچے اور وفاقی اخراجات کو ’ری بلڈ‘ کرنا چاہتا ہے۔

چین اور امریکہ کے درمیان ترقی کی اس دوڑ کے تناظر میں گلوبل سٹرٹیجک افیئرز کے امریکی ماہر سیٹھ جی جونز نے حال ہی میں’روس، چین، ایران: تین خطرناک لوگ اور بے قاعدہ وار فیئر کا عروج‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔

کتاب میں بیان کردہ نقطہ نظر کے مطابق’امریکہ جب لڑاکا طیارے، میزائل اور روایتی جنگی صلاحیتوں کو جلا دینے میں مصروف تھا تو اس کے تین بڑے حریف [روس، ایران اور چین] نے سائبر حملوں، پراکسی فورسز، پروپیگینڈا، جاسوسی، ڈس انفارمیشن اور انتخابات میں مداخلت ایسی بے قاعدہ وار فیئر سرگرمیوں کو بڑے پیمانے پر استعمال کر کے امریکہ کو دھول چٹا دی۔ مؤخر الذکر طاقتیں تیسرے اور چوتھے صنعتی انقلاب کی جائے پیدائش ۔ امریکہ ۔ کے مقابلے میں اکسویں صدی کے ٹولز کو زیادہ دل جمعی سے بروئے کار لاتی رہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں مغرب کے اہم اتحادیوں کو ناراض کرنے کی پالیسی عروج پر تھی۔ نام نہاد مغربی اقدار حتی کہ نیٹو اتحاد سے ٹرمپ کی وفاداری بھی محل نظر رہی۔

بائیڈن کے اقتدار میں افغانستان بحران کے دوران رونما ہونے والے واقعات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ’بزرگ امریکی قیادت‘ افغانستان کے انخلا کے بعد ملک میں داخلی تقسیم کے عمل کو روکنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہے۔ نیز غیر ملکی اتحادیوں سے کشیدہ تعلقات سونے پر سہاگے کا کام کر رہے ہیں۔

انتہا پسند سیاسی قوتوں اور تنظیموں کی حقیقت جانے بغیر امریکہ جس طرح لبرل سوچ کے فروغ کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا ہے وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی شرکا سے متعلق انکل سام کی اپروچ میں کھلے تضاد کو واضح کرتا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہی تضاد اس کے پیروں کی زنجیر بنتا جا رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ