عورت راج!

ضیا دور کی یہ فلم روایتی مردوں کو دکھانا بہت ضروری ہے کیونکہ انہیں چنداں احساس نہیں کہ وہ عورتوں کے لیے زندگی کیسی جہنم میں ڈھال رہے ہیں۔

آج آواز اٹھائیں گے تو مستقبل میں عورت راج کا نفاذ ہو گا اور ضرور ہو کر رہے گا (اے ایف پی)

’عورت راج‘ 1979 میں جنرل ضیا کے دورِ ظلمت میں بننے والی ایسی اچھوتی اور انوکھی فلم تھی جس میں مرد کی ظالمانہ حاکمیت اور غیرمنصفانہ رویے کے خلاف عورتوں کے احتجاج اور نتیجتاً ناقابلِ یقین مگر ممکن معاشرتی تبدیلی کی ہلکے پھلکے کامیڈی انداز میں عکاسی کی گئی۔

یہ فلم بنانے کا خیال عظیم اداکار رنگیلا کو اچانک ہی سوجھا جب ان کے کسی دوست نے انہیں شوکت تھانوی کی ایک مختصر کہانی سنائی اور اسی کہانی کے پلاٹ پر رنگیلا نے ’عورت راج‘ جیسی غیر روایتی فلم بنانے کی ٹھان لی۔

انتہائی بھاری بھرکم بجٹ کی اس فلم میں رنگیلا نے اپنی ساری جمع پونجی جھونک دی۔

انہوں نے نہ صرف اس وقت کے کامیاب سپر سٹارز کو کاسٹ کیا جن میں سلطان راہی، وحید مراد، رانی، نغمہ، چکوری، بدر منیر، البیلا وغیرہ شامل تھے بلکہ خود فلم کی پروڈکشن اور ہدایت کاری کے ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

فلم میں شوہر (کردار ادا کرنے والے وحید مراد) کے تشدد، ناروا رویے، ظالمانہ حاکمیت کے خلاف ایک عورت (مرکزی کردار رانی) اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ایک سٹریٹ موومنٹ تحریکِ نسواں کی صورت میں شروع کر دیتی ہے جس میں دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک سے عورتیں شامل ہو جاتی ہیں۔

یہ تحریک اس قدر زور پکڑ لیتی ہے کہ ملک میں نئے انتخابات ناگزیر ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں ملک میں عورت راج نافذ ہو جاتا ہے۔

تمام عہدوں پر عورتیں حاکم ہو جاتی ہیں اور مردوں کو انہی کے رویے کا مزہ چکھانے کے لیے وہ تمام کام کرنے پڑتے ہیں جو روایتاً معاشرے میں عورت کے تصور کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں اور انہیں اسی ناروا غیرمنصفانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو عورتیں سہتی آئی ہیں۔

گویا ’عورت راج‘ میں عورتیں مرد کی حاکمیت سنبھال لیتی ہیں اور مردوں کو معاشرے میں عورتوں کی جگہ لینی پڑ جاتی ہے۔

اس کے نتیجے میں ملک میں مردوں کو احساس ہوتا ہے کہ عورتیں روایتاً کس قدر ظلم کا شکار رہی ہیں، معاشرہ ان کے ساتھ کیسا سنگین سلوک روا رکھتا ہے، عورت کے لیے معاشرے میں جینا اور آگے بڑھنا کتنا دشوار ہے، اپنے حقوق حاصل کرنا عورت کے لیے ناممکن کے کتنا قریب ہے اور یہ سب مسلسل تازندگی سہنا برداشت کرنا کس قدر کٹھن ہے۔

ہیوی بجٹ اور سپر ہیوی کاسٹ کی یہ فلم اپنے وقت میں باکس آفس پر تو نہ چل سکی مگر جنرل ضیا کے دورِ میں جب عورتوں کے لیے پسماندہ، دقیانوسی غیر منصفانہ اور سخت قوانین تیار ہو رہے تھے اور عورت کے لیے شدت پسند سوچ پروان چڑھ رہی تھی، ایسے میں عورت راج جیسی غیر روایتی، اچھوتی اور انوکھی فلم بنا کر شائقین کو پیش کرنا ہاری ہوئی گیم پر شرط لگانے کے مترادف تھا۔

فلمی روایات کے مطابق بھی یہ دور ایسا تھا جہاں رومانی اور ایکشن پر مبنی کہانیوں کا بول بالا تھا۔

ایسے میں حسّاس غیر روایتی سماجی ایشو پر فلم بنا کر پیش کرنا شائقین کے لیے ناقابلِ ہضم بات تھی اور یہی اس فلم کی باکس آفس پر ناکامی کے اسباب میں سے ایک وجہ بھی بنی۔

فلمی تاریخ میں ’عورت راج‘ اپنا ایک منفرد نام ضرور درج کروا گئی۔ میں سمجھتی ہوں پاکستان میں ہر مرد کو خاص طور پر یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔

اس کی پرانی کاپیاں ابھی بھی لاہور میں فلم کی دکانوں پر دستیاب ہیں تاکہ ہمارے معاشرے کے مردوں کو اندازہ ہو سکے کہ وہ عمومی طور پر روایتاً عورتوں کے ساتھ جو سلوک کرتے ہیں، جس طرح عورت کا ٹھٹھا مذاق اڑاتے ہیں، عورت کو حقیر اور قابلِ تحقیر سمجھتے ہیں، عورت کے لیے اس کے بنیادی حقوق کی نفی کرتے ہیں، پیدائش سے لے کر اس کی موت تک عورت کی زندگی کے ہر فیصلے کو اپنا ازلی و ابدی حق سمجھتے ہیں، جس طرح گھر سے لے کر سڑک تک، سڑک سے لے کر بازار تک، بازار سے لے کر کاروبار اور دفتروں تک عورتوں کے خلاف تشدد، ناروا سلوک، تعصبانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے اس کے بھیانک اثرات کیا ہوتے ہیں۔ 

تمام مردوں کو یہ فلم ضرور دیکھنی اور دکھانی چاہیے تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ اگر مرد کو عورت کی جگہ پر رکھ کر ویسا ہی سلوک سہنا پڑے تو کیا قیامت آ جائے گی۔

پاکستانی معاشرے میں عورت کو سب سے آسان اور سافٹ ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے، اسی لیے عمومی طور پر مرد کے لیے زیادہ سہل ہوتا ہے کہ وہ اپنی روایتی حاکمیت جتانے کی خاطر، اپنی کھوکھلی اَنا کی تسکین کی خاطر یا اپنے نفسیاتی امراض کے بدلے کے نتیجے میں عورت کو کبھی مذہب کی آڑ لے کر، کبھی معاشرتی روایات کا لبادہ اوڑھ کر ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنا ڈالے۔

یہ سب کرتے ہوئے روایتی مرد کو چنداں احساس نہیں ہوتا کہ وہ صنفِ مخالف کے لیے زندگی کیسی جہنم میں ڈھال رہا ہے۔

جب تک مرد ان تمام تکالیف اور مشکلات سے نہیں گزرے گا، انہیں اپنے اوپر محسوس نہیں کرے گا تب تک اسے رتی برابر نہ تو احساس ہو گا نہ فرق پڑے گا۔

حالیہ برسوں میں جس طرح پاکستانی معاشرہ خواتین کے لیے غیر محفوظ بنا ہے اور اس کے اثرات تمام طبقات اور سطحوں پر محسوس کیے جا رہے ہیں یہ انتہائی خوف ناک صورت حال ہے۔

لیکن اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اربابِ اختیار اس معاملے میں دوغلی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔

ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے قوانین تو ہیں مگر ان قوانین پر عمل ندارد۔

اوّل تو قانونی عمل کی پیچیدگیوں اور معاشرتی دباؤ کے خوف تلے خواتین اپنے خلاف ظلم کے مقابلے میں انصاف کی شنوائی کے لیے سامنے آنے سے گریز کرتی ہیں اور اگر کوئی دل گردے والی عورت ہمت کر ہی لے تو نظام کی پیچیدگیاں اور اس میں رائج خواتین مخالف رویے ہر ہر سطح پر اس عورت کی ایسی حوصلہ شکنی کرتے ہیں کہ شاذونادر ہی کوئی اس اعصابی جنگ کے پریشر کو برداشت کر پائے۔

لیکن ایک عورت کے خلاف معاشرے اور نظام کا ناروا رویہ دیگر تمام عورتوں کی حوصلہ شکنی اور ان میں خوف پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ خواتین کے خلاف ظلم زیادتی اور متعصبانہ رویے کی حالیہ عرصے میں سرپرستی کچھ ایسے محسوس اور غیر محسوس انداز سے تسلسل کے ساتھ پنپتی رہی ہے کہ ضیا کے دور کی یاد تازہ ہو گئی۔

پاکستان میں عورت کے لیے نہ تو گھر محفوظ رہا ہے نہ سڑک بازار نہ سکول کالج نہ دفتر کاروبار۔ ایسے میں غیر محفوظ جگہوں میں ایک مزید اضافہ سوشل میڈیا کا بھی ہو گیا ہے۔

تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق جس طرح آن لائن سپیس ترقی کر رہی ہے اور خواتین دنیا کی نصف آبادی کا حصہ ہونے کی بدولت اس ترقی میں برابر کی شراکت دار ہونی چاہیں، مگر افسوس کے ساتھ کہ مردوں نے عورتوں کے لیے اس نئی جگہ کو بھی ایک ڈراؤنا خواب بنا دیا ہے۔

خواتین کو محض ان کی جِنس کی بِنا پر اور ایک آسان سافٹ ٹارگٹ سمجھتے ہوئے جس طرح تسلسل اور شدت کے ساتھ نشانہ بنایا جاتا ہے یہ عنصر معاشرے کی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آن لائن سپیس، سوشل میڈیا فورمز کا خواتین کے لیے غیر محفوظ ہوتا جانا پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں جہاں خواتین مخالف رویوں کو منظم معاشرہ جاتی، سرکاری سرپرستی حاصل ہو، وہاں ان جگہوں کا خواتین کے لیے غیر محفوظ ہونا دہری اذیت کا باعث بنتا ہے۔

آن لائن سپیسز، سوشل میڈیا فورمز پر خواتین کے خلاف جرائم ہونا اور پھر ان جرائم کے خلاف خواتین کی دادرسی نہ ہونا بھی ایک سنگین جرم بنتا جا رہا ہے اور اس پر اربابِ اختیار کی دوغلی پالیسی عورتوں کے لیے زہرِ قاتل بن رہی ہے۔

کتنی ہی خواتین کے گھر اجڑ گئے، کتنی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئیں، کتنی ہی خواتین اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں، معاشی مسائل کا شکار ہو گئیں کیونکہ اِن جگہوں پر بھی حاکمیت جمائے بیٹھے آدم زاد درندے حَوّا کی بیٹیوں کا شکار کرنے تیار بیٹھے رہتے ہیں اور نظام کی کمزوری، انصاف کی عدم موجودگیان درندوں کو مزید اور مسلسل شہہ مہیا کرتی ہے۔

فی الوقت ان تمام مسائل کا ایک ہی اور دیرپا حل ہے اور وہ یہ کہ عورت اپنی آواز اٹھانا بند نہ کرے۔

پدرسری مردانہ معاشرہ عورت کے خلاف جس قدر بھی ظلم زیادتی کرے، اسے ہر صورت اپنے حق کے لیے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی، جھجھکنا نہیں، ڈرنا نہیں، ظلم سے اور ظالم سے مسلسل لڑنا پڑے گا۔

یہ جنگ طویل بھی ہو گی، تھکا دینے والی بھی اور اس کے ثمرات بھی جلد نہ ملیں گے مگر ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں ہماری آئندہ پیڑھیوں کی بچیاں لڑکیاں اور عورتیں ضرور محفوظ بنیں گی۔

آج آواز اٹھائیں گے تو مستقبل میں عورت راج کا نفاذ ہو گا اور ضرور ہو کر رہے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ