امریکی بل خام خیالی سے بڑھ کے کچھ نہیں

افغانستان میں ہارے ہوئے، مارے ہوئے اور بھاگے ہوئے امریکہ کی سیاسی قیادت کو عمومی طور پر اور حزب اختلاف قیادت کو خاص طور پر اپنی تاریخی شرمندگی مٹانے کے لیے کچھ اقدامات تو آخر کرنے ہیں، امریکہ کی اس ہار میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت نے حصہ ڈالا۔

طالبان کی جیت کا سہرہ امریکہ کے عسکری، سفارتی اور کسی حد تک سیاسی عہدے دار پاکستان کے سر رکھتے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں جس بل کے نتیجے میں کچھ پریشانی پھیل گئی، کہیں سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی اور کہیں بحران کی بات ہونے لگی دراصل خام خیالی سے زیادہ کچھ نہیں۔

وہ بل جس کو امریکہ کی اپوزیشن یعنی ریپبلکن پارٹی کے 22 سینیٹرز نے سینیٹ میں پیش کیا اگر اس کے 57 صفحات پڑھے جائیں تو امریکہ کی سیاسی، عسکری اور یقیناً نفسیاتی صورت حال کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن پہلے پاکستانیوں کی تسلی کی خاطر یہ دیکھ لیا جائے کہ آیا اس بل کی وجہ سے پاکستان کو طالبان کی ماضی کی مدد کی وجہ سے کچھ سزا دی جائے گی؟ یعنی اقتصادی اور مختلف قسم کی پابندیاں لگائی جائیں گی؟

افغانستان میں ہارے ہوئے، مارے ہوئے اور بھاگے ہوئے امریکہ کی سیاسی قیادت کو عمومی طور پر اور حزب اختلاف کی قیادت کو خاص طور پر اپنی تاریخی شرمندگی کو مٹانے کے لیے کچھ تو اقدامات آخر کرنے ہیں، امریکہ کی اس ہار میں دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی قیادت نے حصہ ڈالا۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کر کے ان کو سیاسی و سفارتی اہمیت دی اور موجودہ صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے نکلنے کا جو راستہ اور طریقہ اپنایا اس کے نتیجے میں تو ویت نام کی ہار کچھ بہت چھوٹی چیز دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان سے فرار کے طریقے نے امریکہ کو ایک کبھی نہ بھولنے والی سیاسی، سفارتی اور عسکری شکست سے دوچار کروایا۔

طالبان کے تیزی سے عسکری اور سیاسی پھیلاؤ نے ان کی جیت تقریباً یقینی بنا دی تھی۔ بس معاملہ طریقہ کار کا تھا جس سے امریکہ کی شرمندگی اور پسپائی کس انتہا کی ہوتی وہ طے ہونا تھا۔ ایک تاریخی شرمندگی کے بعد ایک ایسی قیادت اور قوم جس نے اپنے آپ کو دنیا کا عظیم ملک سمجھا اور اپنے کو دنیا کی قیادت گا رول سونپا اس نے آخر کوئی جواب تو دینا ہی ہے۔ خود کو صحیح کہنا ہے اور دوسروں پر اپنی پسپائی کی ذمہ داری عائد کرنی ہے۔ تو بس پھر اسی تناظر میں امریکی بل کو سمجھنا پڑے گا۔

ایک نہایت دلچسپ پہلو اس بل کا یہ ہے کہ جو اس کا نام ہے یعنی افغانستان: دہشت گردی مخالف نگرانی اور احتساب۔ اس بل کا ہدف جو بیان کیا گیا ہے وہ افغانستان کے طالبان اور وہ تمام لوگ جو طالبان کی مدد کریں گے ان پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ لیکن اگر بل کا 57 صفحہ پڑھنے جائیں تو اس میں عمومی طور پر جو ہدف ہے اس کا تعلق براہ راست چین اور روس سے ہے۔

مجوزہ بل کے شروع ہی کے حصے چین اور روس کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک سے تعلقات کے بارے میں ہیں۔ بل میں یہ صاف صاف لکھا ہے کہ روس اور چین کے جو معاشی اور عسکری تعلقات ان ممالک سے ہیں وہ امریکہ کے مفادات کی نفی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے روس اور چین کے تعلقات کا جائزہ لینے کے لیے امریکہ کے مختلف اداروں کو جن میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ، کامرس اور پینٹاگون کو شامل ہونا چاہیے ان اداروں کو سینٹ کے سامنے ایک تفصیلی حساب کتاب شیئر کرنا چاہیے اور ساتھ میں یہ بھی بتانا چاہیے کہ امریکہ چین اور روس کو اس خطے میں میں کس طریقے سے پیچھے دھکیل سکتا ہے۔

یہ معاملہ یقینا جس کی عکاسی  ریپبلکن بل کر رہا ہے وہ دہشت گردی اور افغانستان سے تعلق تو رکھتا ہے لیکن جو اصل بنیادی اور بڑا معاملہ ہے وہ امریکہ کی حالیہ سالوں میں گھبراہٹ کا ہے۔ اس پریشانی کا مفصل طور پر اظہار جون 12 کے جی سیون سربراہی اجلاس میں شریک رہنماؤں نے کیا۔

اس سربراہی اجلاس میں باقاعدہ طور پر یہ فیصلہ ہوا کہ چین کے دنیا میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا لازمی جواب دینا ہوگا تاکہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکا جائے۔ جون سمٹ میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے جواب میں جی سیون ممالک بلڈ بیک بیٹر (build back better) ورلڈ کا ترقیاتی پروگرام شروع کریں گے۔ اس ترقیاتی پروگرام کے ساتھ امریکہ نے ایک 14 ممالک پر مشتمل عسکری اتحاد بھی بنایا ہے جس میں بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ رکن ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد چین اور روس کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کا جواب دینا ہے۔

یہ بظاہر دلچسپ بات ہے کہ ان 20 سینیٹرز نے بظاہر طالبان، افغانستان کے بل میں چین اور روس پر تفصیل کے ساتھ امریکی حکمت عملی کا خاکہ بھی پیش کیا لیکن جو بظاہر آج دکھائی دے رہا ہے وہ اصل میں ایک منطقی عمل ہے۔ جہاں طالبان کا افغانستان میں حکومت سنبھالنا کسی حد تک امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے لیکن یہ یاد رہے کہ امریکہ طالبان سے 2012 سے مذاکرات کر رہا ہے۔

معاملہ طالبان کا اس وجہ سے شاید امریکہ کے لیے اتنا سنگین نہ ہو لیکن جس طریقے سے چین اور روس بشمول ایران، ازبکستان کا طالبان کے ساتھ ایک بہتر تعلقات کی صورت حال بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے وہ یقینا امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ آخر ایشیا میں جہاں 2012 میں صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن امریکہ کو ایشیا میں ایک قیادت کا کردار دینے کا اہتمام کر رہے تھے وہی امریکہ اس وقت افغانستان کی ہار کو لے کر شرمندہ اور پریشان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ریپبلکن بل اسی پریشانی کی نوید ہے۔ اس بل میں یقینا طالبان کے خلاف لکھت پڑھت ہے یعنی کس طریقے سے طالبان کو کوئی امداد نہیں دی جائے گی کوئی تعلقات نہیں رکھے جائیں گے غرض یہ کہ طالبان کی پہلی حکومت سے جو رویہ تھا اسی کو دہرایا جائے گا۔

ہاں البتہ انسانی ہمدردی میں افغانستان کے شہریوں کو ہر قسم کی امداد کرنے کا اس بل میں کہا گیا ہے۔

طالبان کی جیت کا سہرہ امریکہ کے عسکری، سفارتی اور کسی حد تک سیاسی عہدے دار پاکستان کے سر رکھتے ہیں۔ اس بل میں 20 سال کے دوران طالبان کو جو پاکستان نے مبینہ طور پر مدد کی اس کا حساب کتاب مانگا گیا ہے۔ پاکستان نے جو اب حال میں طالبان کی مدد کی اس کی بھی تفصیل امریکہ کے اداروں کو سینٹ کو دینی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان نے جو طالبان کو امداد دی اس کی بنا پر اس پر سزا کے طور پر پابندیاں لگائی جائیں۔ یہ زیادہ تر خام خیالی ہی ہے۔ تمام ممالک کسی نہ کسی صورت میں طالبان سے رابطے میں رہیں گے اور امریکہ بھی رہے گا۔

قصہ مختصر یہ رپبلکن بل نہ پاس ہوگا اور نہ ہی پاکستان پر اس کا کوئی اثر ہونے والا ہے۔ البتہ دو حقائق اپنی جگہ موجود ہیں۔ نمبر ایک کہ امریکہ ابھرتے ہوئے چین اور روس سے بہت گھبرایا ہوا ہے اور آنے والے دنوں میں اپنے تعلقات بھارت سے اور بھی مضبوط کرے گا۔ نمبر دو حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ ڈال کر ان کی چین سے دوری اور بھارت سے قربت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر