طالبان سے بات کریں لیکن ماضی سے مختلف

مذاکرات ضرور کریں لیکن ایسا نہ ہو کہ گذشتہ معاہدوں کی طرح مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی شدت پسندوں کے مطالبات مان لیے جائیں۔

طالبان پاکستان کو دوبارہ منظم کرنے اور مستحکم کرنے کے لیے بھارت سرگرم ہے: مشیر برائے قومی سکیورٹی معید یوسف(اے ایف پی)

حکومتِ پاکستان کی جانب سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ایک اور کوشش کی جا رہی ہے۔

اس بار ملک کی باگ ڈور وزیر اعظم عمران خان کے پاس ہے اور طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان میں موجود ہے جہاں وہ پاکستانی فوج کے آپریشن کے بعد فرار ہو کر جا بسے تھے۔

افغانستان سے ٹی ٹی پی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ حالیہ ہفتوں میں ان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

اس سے قبل حکومت پاکستان اور طالبان پاکستان کے درمیان تین بار باضابطہ معاہدے ہوئے جن کا نتیجہ صفر بٹا صفر رہا۔

2004 میں حکومت نے جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس کا مقصد نیک محمد وزیر پر دباؤ ڈالنا تھا کہ وہ غیر ملکی جنگجوؤں جن میں عربی، چیچن اور ازبک شامل تھے، کو نکال دیں۔

تاہم آپریشن کی ناکام کے بعد حکومت نے شکاکئی معاہدہ کیا جس میں طے پایا کہ نیک محمد غیر ملکی جنگجووں کو رجسٹر کریں گے اور پاکستان کی سرزمین سے افغانستان میں حملے نہیں کرنے دیے جائیں گے۔

یہ معاہدہ اپنی نوعیت کا پہلا معاہدہ تھا۔ تاہم نیک محمد نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور ان قبائلی مشران کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا جنہوں نے اس معاہدے میں حکومت کی مدد کی تھی۔

ایک نتیجہ اس معاہدے کا یہ نکلا کہ نیک محمد جن کی عمر 30 سے بھی کم تھی، ان کے مرتبے میں بے حد اضافہ ہو گیا۔

دوسرا معاہدہ سراروغہ معاہدہ تھا جو حکومت اور بیت اللہ محسود کے درمیان ہوا۔ آس معاہدے کا مقصد طالبان کے مزید پھیلاؤ کو روکنا تھا لیکن نتیجہ اس کے برعکس ہوا۔

تیسرا معاہدہ 2008 میں سوات میں ملا فضل اللہ کے ساتھ ہوا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے سوات میں طالبان کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں اور آخر میں سوات میں خونریزی کو روکنے کے لیے معاہدہ طے پایا لیکن وہ بھی زیادہ عرصہ نہیں چل پایا۔

حملے روکنے کے لیے حکومت نے نظام عدل کے نفاذ کی ہامی بھر لی اور ملا فضل اللہ نے سیز فائر کا اعلان کیا۔

یہ تو تین باضابطہ معاہدے ہیں جن کو کیا گیا اور ناکام ہوئے۔ ان کے لعاوہ تین سے چار ایسے معاہدے ہیں جو کہ باضابطہ نہیں اور ان کو معاہدوں کی بجائے understanding یا مفاہمت کہا جائے تو بہتر ہو گا۔

ان تینوں معاہدوں میں ایک بات یکساں تھی کہ حکومت کمزور پوزیشن سے بات چیت کر رہی تھی۔ شکاکئی کا معاہدہ ایسے وقت میں ہوا جب فوجی آپریشن نناکام ہوا اور بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

سراروغہ معاہدے میں طالبان تیزی سے مختلف علاقوں میں پھیل رہے تھے اور اس وقت ان کی پوزیشن حکومت سے کہیں زیادہ مستحکم تھی۔

سوات معاہدے میں ملا فضل اللہ کو حکومت خیبر پختونخوا نے اتنی رعایت دے دیں کہ اس کو پتہ چل گیا کہ حکومت کمزور ہے اور اسی لیے اس نے مئی 2008 میں ہونے والے معاہدے کے ایک سال کے اندر منگورہ کا کنٹرول سنبھال لیا۔

وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں ایک انٹرویو کے دوران انکشاف کیا کہ حکومت تحریک طالبان پاکستان کے بعض گروپوں کے ساتھ افغانستان میں مذاکرات کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے کچھ کے ساتھ۔۔ مختلف گروپس ہیں جو ٹی ٹی پی بناتے ہیں ان میں سے کچھ کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔‘

حکومت پاکستان اس وقت مضبوط پوزیشن میں ہے یا نہیں اس پر رائے منقسم ہے۔

کچھ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے باعث وہاں پناہ لیے ہوئے ٹی ٹی پی کی قیادت کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ حکومت سے مذاکرات کرنے کو اول تو تیار نہیں ہو گی یا پھر ماضی کی طرح ایک بار پھر مذاکرات میں اپنی شرائط منوائے گی۔

تاہم ریلیجنز فار پیس کی سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عزہ کرم کا کہنا ہے کہ طالبان کو ایک مذہبی جماعت کے طور پر جب تک دنیا دیکھتی رہے گی تو ان کی توقعات مختلف ہوں گی۔

’وقت آ گیا ہے کہ طالبان کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جائے جس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے طور پر جب دیکھا جائے تو توقعات بھی اس کے مطابق ہوں گی اور ان سے بات چیت بھی اس کے مطابق کی جائے گی۔‘

اور یہی وجہ ہے کہ دوسری رائے یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت افغانستان میں پناہ لیے ہوئے اور چھوٹے موٹے حملے تو کر سکتی ہے جو کہ وہ فوجی آپریشن کے بعد بھی کر رہی تھی لیکن جو منصوبہ بندی اور اس پر عمل پاکستان میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ہوتے ہوئے کیے جا سکتے ہیں وہ اب مشکل ہیں۔ اور افغان طالبان شاید ٹی ٹی پی کو مذاکرات کی میز تک لے آئیں۔

ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے مشیر برائے قومی سکیورٹی معید یوسف کہہ چکے ہیں کہ طالبان پاکستان کو دوبارہ منظم کرنے اور مستحکم کرنے کے لیے بھارت سرگرم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قبائلی اضلاع دشوار گزار علاقے ہیں اور ان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو کافی حد تک کم تو کیا جا سکتا ہے جو کیا جا چکا ہے لیکن مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن ہے۔

پاکستان اس وقت معاشی ترقی کی جانب گامزن ہے اور چین پاکستان راہداری جتنی چین کے لیے اہم ہے اس سے اگر زیادہ نہیں تو اتنی ہی اہم پاکستان کے لیے ہے۔

معاشی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ دہشت گردی ہے جو کہ بلوچستان اور قبائل اضلاع میں اس وقت جاری ہے۔

اس دہشت گردی کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔

تاہم اس بار ضروری ہے کہ حکومت اپنا ہاتھ اوپر رکھے اور شدت پسندوں کے مطالبات کو مذاکرات کے شروع ہونے سے قبل ہی نہ مان لے جیسے کہ گذشتہ معاہدوں میں دیکھا گیا۔


نوٹ: یہ بلاگ لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ