آپ نے سبزی تو بہت بار خریدی ہوگی مگر کیا کبھی کسی پی ایچ ڈی سکالر سے سبزی خریدی ہے؟
اسلام آباد کے عدنان مایار نے مشکل حالات اور کٹھن مراحل سے گزرنے کے باوجود تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور اب فنانس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، مگر ان کی کہانی کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ وہ کوئی ملازمت حاصل نہیں کر سکے ہیں اور اسلام آباد کی سبزی منڈی میں پیاز اور ٹماٹر کا سٹال لگاتے ہیں۔
نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) میں پی ایچ ڈی کے طالب علم عدنان مایار کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ والد کی وفات کے بعد 2005 میں جب انہوں نے محنت مزدوری کا سلسلہ شروع کیا تو ان کی عمر بمشکل 10 یا 11 برس تھی۔
انہوں نے کہا: ’جب میں 2005 میں یہاں آیا تو پڑھنے کا بہت شوق تھا، اس لیے سٹال پر کام کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ پڑھتا بھی تھا، سٹال پر بھی کام کرتا تھا اور کباڑ بھی چنتا تھا۔ بہت عرصہ یہ کام کیا، اس کے بعد لوڈنگ ان لوڈنگ کا کام بھی کیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدنان مایار نے بتایا کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے انہوں نے ہوٹل پر بھی کام کیا اور منڈی میں ریڑھی بھی چلائی مگر تعلیم حاصل کرنا نہیں چھوڑا۔
بقول عدنان:’بچپن میں ڈاکٹر بننے کا شوق تھا مگر جب ایف ایس سی پری میڈیکل کیا اور اخراجات کے بارے میں پتہ چلا تو سمجھ آگئی کہ ڈاکٹر بننا میرے لیے ناممکن ہے اسی لیے میں فنانس کی فیلڈ میں آیا اور قائداعظم یونیورسٹی سے ملحقہ کالج میں بی کام میں داخلہ لے لیا۔‘
اس کے بعد انہوں نے فیڈرل اردو یونیورسٹی سے فنانس میں سپیشلائزیشن کے ساتھ ایم کام کیا۔ پھر رفاہ یونیورسٹی میں ایم ایس فنانس میں داخلہ لے لیا، جس کی تکمیل کے بعد اب وہ نمل سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں کیونکہ ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کرنا ہے۔
عدنان کا کہنا تھا کہ اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ اتنی تعلیم حاصل کی ہے پھر بھی سبزی منڈی میں کام کر رہے ہو تو کبھی کبھی برا بھی محسوس ہوتا ہے کہ اتنی محنت کے بعد بھی اپنی پسند کی ملازمت حاصل نہیں کر پایا۔
عدنان کا تعلق مردان سے ہے اور ان کا خاندان وہیں ہوتا ہے۔ ان کے بقول ان کی اہلیہ نے بی اے کیا ہے اور اب ایم اے کر رہی ہیں، جبکہ اس جوڑے کی دو بیٹیاں ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اہلیہ کو ان کے سبزی منڈی میں کام کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ وہ ہمت بندھاتی ہیں اور والدہ بھی تعاون کرتی ہیں۔ ’یہ ان ہی کی دی ہوئی ہمت ہے کہ آج میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں۔‘
مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے عدنان مایار کا کہنا تھا: ’ہر انسان کی طرح میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ کسی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ لیکچرر یا بطور لیکچرر تعینات ہو جاؤں۔ چاہتا ہوں کہ اس ماحول سے نکل کر ایسے ماحول میں جاؤں جہاں ریسرچ کا کام اچھے طریقے سے جاری رکھ سکوں۔‘