افغانستان پر جی 20 کا اجلاس: طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے گا؟

افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے اٹلی اجلاس کے رُکن ممالک پر زور دے رہا تھا کہ اس موضوع پر ہنگامی اجلاس ہونا چاہیے۔

17 اور 18 ستمبر کو منعقد ہونے والی جی ٹوئنٹی ایگریکلچر منسٹرز میٹنگ کے موقع پر اجلاس کے شرکا کی تصویر(تصویر: جی ٹوئنٹی اٹلی ویب سائٹ)

دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کے عالمی فورم جی ٹوئنٹی کا سربراہی غیر معمولی اجلاس منگل (12 اکتوبر) کو اٹلی کے شہر روم میں منعقد ہونے جارہا ہے، جس کا موضوع افغانستان اور اس کی صورت حال ہے۔

جی ٹوئنٹی ممالک کا معمول کا سالانہ اجلاس رواں ماہ 30 اکتوبر کو منعقد ہونا ہے لیکن آج ہونے والے غیر معمولی سربراہی اجلاس میں افغانستان میں انسانی امداد، بنیادی انسانی حقوق اور سکیورٹی کے معاملات پر بات چیت کی جائے گی۔

اجلاس میں اقوام متحدہ کے نمائندے اور قطر بھی شریک ہوگا، جو باضابطہ طور پر فورم کا حصہ نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس غیر معمولی اجلاس میں ورچوئل طور پر شریک ہوں گے۔

گذشتہ روز اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انتونیو گتریس نے افغان معیشت کو درپیش چیلینجز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کے دیگر ممالک میں اثاثے منجمد ہیں اور ترقیاتی امداد روک دی گئی ہے، لہذا ’ہمیں راستہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ معیشت دوبارہ سے سانس لے سکے۔ ایسا بین الاقوامی قوانین یا اصولوں کو نظرانداز کیے بغیر کیا جانا چاہیے۔‘

 

انتونیو گتریس نے عالمی برادری سے درخواست کی تھی کہ وہ ایکشن لے اور تباہی سے بچنے کے لیے افغان معیشت میں کیش انجیکٹ کرے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہمیں معیشت میں کیش انجیکٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ میں عالمی برادری سے طالبان یا موجودہ حکام کو پیسہ دینے کے لیے نہیں کہہ رہا۔‘

افغانستان میں امریکی انخلا، اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کی معیشت ’تباہی‘ کے دہانے پر ہے کیونکہ بین الاقوامی امداد بند ہے جس کے باعث اشیائے خورد ونوش بڑھ رہی ہیں اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس صورت حال میں اٹلی نے جی ٹوئنٹی رکن ممالک پر زور دیا تھا کہ اس موضوع پر ہنگامی اجلاس ہونا چاہیے جبکہ اطالوی وزیر اعظم ایک بیان میں کہہ چکے ہیں کہ ’افغانستان انسانی مسائل سے گزر رہا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم مداخلت کریں۔‘

اٹلی نے رکن ممالک پر زوردیا تھا کہ ’سب کو بغیر کسی مفاد کے افغانستان میں موجود افراد کی مدد کرنی ہوگی اور ان کی جانیں بچانا ہوں گی۔‘

ادھر مڈل ایسٹ آئی نیوز کو حال ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ’دنیا کے ممالک کو ہر صورت میں افغانستان میں طالبان کی حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان داعش کا گڑھ بن سکتا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان خطے میں اقتصادی ترقی کا فروغ چاہتا ہے، افغانستان کو تنہا کرنے کے منفی اثرات ہوں گے، امریکہ کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا اور داعش سے چھٹکارا پانے کے لیے طالبان ’واحد اور بہترین آپشن‘ ہیں۔

اٹلی کے شہر روم میں افغانستان کی صورت حال پر ہونے والے غیر معمولی سربراہی اجلاس میں کیا امکانات ہیں؟ اور کیا ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا؟

ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سینیئر سفارتی صحافی و تجزیہ کار شوکت پراچہ سے گفتگو کی، جنہوں نے کہا کہ طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ابھی تو طالبان کی حکومت کے اراکین بھی مکمل نہیں ہیں۔ ابھی دیگر جماعتوں کے نمائندے بشمول خواتین حکومت میں شامل ہوں گے اس لیے ابھی حکومت کو تسلیم کرنے کا مرحلہ دور ہے۔‘

لیکن انسانی حقوق اور سردیوں میں بے گھر افراد کی مدد کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک افغانستان کو مدد کی پیشکش ضرور کریں گے۔

جی ٹوئنٹی کیا ہے؟

جی ٹوئنٹی بنیادی طور پر اقتصادی طور پر مضبوط ممالک کے اتحاد کا فورم ہے، جس میں یورپی یونین سمیت 19 ممالک شامل ہیں جن میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، برطانیہ، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی اور امریکہ شامل ہیں۔

جی ٹوئنٹی اپنے اجلاسوں میں افریقی یونین، ایشیا پیسیفک کوآپریشن، عالمی مالیاتی فنڈ، اقوام متحدہ، عالمی ادارہ تجارت اور سپین کو بطور مستقل مہمان مدعو کرتا ہے۔

عمومی طور پر اس کے اجلاس میں سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ مرکزی بینک کے سربراہان بھی شریک ہوتے ہیں۔ جی ٹوئنٹی کا اجلاس سالانہ بنیادوں پر ہوتا ہے لیکن ہنگامی صورت حال کے پیش نظر بھی اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ اس بار افغانستان کی صورت حال کے تناظر میں اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ جی ٹوئنٹی رکن ممالک کی صدارت کا اعزاز اس برس اٹلی کے پاس ہے۔

جی ٹوئنٹی ممالک مشترکہ طور پر عالمی اقتصادی پیداوار کے تقریباً 85 فیصد جب کہ 80 فیصد عالمی تجارت کے ذمہ دار ہیں۔

جی ٹوئنٹی کی بنیاد 1999 میں رکھی گئی اور پہلا اجلاس جرمنی کے دارالحکومت برلن میں رکھا گیا تھا جبکہ سربراہی اجلاس پہلی بار 2008 میں واشنگٹن میں ہوا تھا۔ اس کے بعد سے ہر سال سربراہی اجلاس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا