جام مخالف گروپ کا حصہ تھے، ہیں اور رہیں گے: ’لاپتہ‘ اسمبلی اراکین

بلوچستان عوامی پارٹی میں ہی وزیر اعلیٰ جام کمال کے مخالف گروپ کے چار اراکین کا بیان سامنے آگیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہیں صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے ’لاپتہ کر دیا گیا‘ ہے۔

بلوچستان میں وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے اور ان کے استفعیٰ دینے سے انکار کے بعد جاری سیاسی بحران میں ایک نیا موڑ آگیا ہے۔ 

حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) میں ہی وزیر اعلیٰ کے مخالف بننے والے گروپ کے چار اراکین کا بیان سامنے آگیا ہے جن کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ 20 اکتبو کو تحریک عدم اعتماد پر بلائے گئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں اس لیے شرکت نہیں کر سکے کیونکہ انہیں ’لاپتہ کردیا گیا‘ تھا۔

رواں ہفتے تحریک عدم اعتماد کی قرار داد اسمبلی میں پیش کردی گئی، جس کو 33 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جن میں حزب اختلاف سمیت وزیر اعلیٰ کی اپنی پارٹی کے اراکین شامل ہیں۔  

یاد رہے بلوچستان اسمبلی میں 65 اراکین ہیں اور کسی بھی وزیر اعلیٰ کےخلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 33 ارکان کی حمایت ضروری ہوتی ہے۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدھ 20 اکتوبر کو بلائے گئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے دوران تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، تاہم اجلاس میں مخالفین کے پانچ اراکین نہیں تھے۔ ان میں سے ایک لالہ رشید تاخیر سے پہنچ گئے، مگر باقی نہیں آئے۔ 

اسمبلی اجلاس کے بعد جام مخالف گروپ کے اراکین ظہور بلیدی، اسد بلوچ، سردار عبدالرحمان کھیتران اور دیگر نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ان کے حمایتی اراکین اسمبلی، بشریٰ رند، مہ جبین شیران، لیلیٰ ترین اور اکبر آسکانی  کو ’وزیر اعلیٰ نے لاپتہ کرکے حبس بے جا میں رکھا ہے‘۔ 

یہی نہیں بلکہ انہوں نے آئی جی پولیس اور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ جام کمال خود اور حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی ان الزامات کی تردید کرتے رہے کہ اُن کا اِن اراکین کی غیر موجودگی سے کوئی تعلق ہے۔

تاہم جعمے کی رات صوبائی اسمبلی اور باپ میں جام مخالف کیمپ کے رکن ظہور بلیدی نے مبینہ طور پر لاپتہ چاروں اراکین کی ویڈیو ٹوئٹر پر جاری کی، جنہوں نے بتایا کہ وہ ذاتی کاموں کے سلسلے میں اسلام آباد میں ہیں اور آج کویٹہ پہنچ کر جام مخالف گروپ کو جوائن کریں گے۔

ویڈیو میں اکبر آسکانی، بشریٰ رند، لیلیٰ ترین اور مہ جبین شیران کہہ رہے ہیں کہ وہ ذاتی کاموں سے اسلام آباد میں ہیں اور آج (ہفتے کو) کوئٹہ واپس آئیں گے۔

 اسمبلی اراکین کے مطابق وہ جام مخالف گروپ، جس کی قیادت عبدالقدوس بزنجو کررہے ہیں، کا حصہ ہیں اور رہیں گے۔ 

انہوں نے کہا کہ وہ چاروں کوئٹہ میں آکر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کا ساتھ دیں گے۔ 

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔  

ایک صارف عبدالقادر کھوسہ لکھتے ہیں کہ ظہور بلیدی کو اب جام کمال سے معافی مانگنی چاہیے۔

ایک دوسرے صارف جعفر ساجد ایک ارکان کے طبی ٹیس کے دعوے پر سوال اٹھایا۔  

اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر  رائے شماری 26 اکتوبر کو ہوگی، اور وزیراعلیٰ بلوچستان اپنے اتحادیوں پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا ہم سب 41 اتحادی ہیں (بی اے پی ، پی ٹی آئی ، اے این پی ، ایچ ڈی پی ، جے ڈبلیو پی ، پی پی پی ، آزاد ، بی این پی-اے) اور ان میں سے 80 فیصد ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست