آسان قسطوں پر اپنا گھر: کتنی حقیقت، کتنا فسانہ؟

پاکستانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ گھروں کی تعمیر کے لیے آسان شرائط پر کمرشل بینکوں سے قرضوں کے اجرا کی وجہ سے متوسط طبقہ بھی اپنا مکان بنانے کا خواب پورا کر سکتا ہے۔

27 مئی 2021 کو لی گئی اس تصویر میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے مضافاتی علاقے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسلام آباد  اور اس کےنواح میں متعدد ہاؤسنگ  سوسائٹیوں نے اپنے پراجیکٹس شروع کر رکھے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ آسان شرائط پر گھروں کی تعمیر کے لیے کمرشل بینکوں سے قرضوں کے اجرا کی وجہ سے متوسط طبقہ بھی اپنا مکان بنانے کا خواب پورا کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کو ہدایات اور پالیسی بھی جاری کی ہے۔

سٹیٹ بینک کے ڈائریکٹر عمران احمد نے اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’حکومت نے بہت اچھی ایک سکیم کا آغاز کیا ہے جس میں آسان شرائط پر اور کم شرح سود پر قرضے دیے جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: ’پہلے پانچ سال کے لیے پانچ فیصد اور  اگلے پانچ سال کے لیے سات فیصد شرح سود پر قرضے دیے جا رہے ہیں۔ یہ سکیم کم آمدن والے افراد یا ان خاندانوں کے لیے ہے جو پہلے کبھی یہ بوجھ اٹھا ہی نہیں پاتے تھے۔‘

عمران احمد کے مطابق یہ قرضے دو تین قسم کے ہیں۔ ’مائیکرو فنانس بینکوں کے ذریعے 20 لاکھ روپے تک کے قرضے دیے جا رہے ہیں۔ کمرشل بینکوں کے ذریعے پانچ مرلے کے گھروں کے لیے 60 لاکھ روپے تک قرضہ دیا جا سکتا ہے۔ اس سے اوپر چلے جائیں تو پانچ سے دس مرلے کے گھروں کے لیے ایک کروڑ روپے کا قرضہ دیا جا سکتا ہے، لیکن کم آمدنی والے افراد کے لیے قسط 16، 17 ہزار روپے سے شروع کی جا سکتی ہے۔ قرضے کی رقم اگر کم ہو گی تو یقینی طور پر اس کی قسط بھی کم ہو گی۔‘

کمرشل بینکوں نے قرضہ لے کر گھر کی تعمیر پر ایک شرط لگا رکھی ہے جس کے مطابق پلاٹ صارف کے قبضے میں یا اس کے نام پر ہونا چاہیے۔ اگر کسی صارف کے پاس زمین موجود نہیں اور وہ بینک سے قرضہ لے کر پلاٹ خریدنا اور گھر کی تعمیر دونوں کام کرنا چاہے تو کیا ایسا ممکن ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں موجود مختلف ہاؤسنگ پراجیکٹس میں پلاٹ فروخت کرنے والی کمپنیوں کے نمائندوں سے اس حوالے سے سوال کیا۔

سٹار مارکیٹنگ کی مینیجر ماہ نور وحید نے بتایا کہ ’تین مرلے پلاٹ کی قیمت پانچ لاکھ 94 ہزار روپے ہے جبکہ ماہانہ قسط صرف سات ہزار روپے ہے۔ پیشگی ادائیگی دس فیصد ہے یعنی آپ نے صرف 59 ہزار چار سو روپے کرنے ہیں جس سے آپ کا پلاٹ بک ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد چار سال کی آسان اقساط میں ادائیگی کرنی ہے۔ اگر آپ ادائیگی کا چار سالہ پلان لے کر چلتے ہیں تو چار سال کے بعد آپ اپنا گھر بنا سکتے ہیں۔‘

رائل بزنس سلوشن کے مینیجر طالب چوہان کا کہنا تھا کہ ’سات لاکھ 71 ہزار روپے میں آپ کو پانچ مرلے کا پلاٹ مل سکتا ہے جو کہ انتہائی مناسب قیمت ہے۔ پییشگی ادائیگی ساڑھے چار لاکھ روپے بنتی ہے اور بقایہ رقم تین سال کی آسان اقساط میں ادا کر سکتے ہیں۔ تقریباً 15 سے 20 ہزار روپے کی قسط بنتی ہے جو ماہانہ بنیادوں پر جمع کروا سکتے ہیں۔ قسط دس ہزار کی بھی ہو سکتی ہے اگر ادائیگی کے پلان کو چار سال پر لے جائیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ دو سال ترقیاتی کاموں کے بعد بیلیٹنگ کی جاتی ہے اور پھر خریدار کو پلاٹ نمبر اور گلی نمبر مل جاتا ہے جبکہ بیلیٹنگ کے ایک سال بعد  پلاٹ کا قبضہ دے دیا جاتا ہے۔

فائیو جی پراپرٹیز کے مینیجر حیدر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سب سے کم قیمت پلاٹ 19 لاکھ 95 ہزار روپے کا ہے جبکہ انیس ہزار پانچ سو روپے کی ماہانہ قسط ہے۔ پیشگی ادائیگی چار لاکھ روپے ادا کر کے پلاٹ بک کر سکتے ہیں اور پھر اقساط کی ادائیگی کریں۔ تین سال کے بعد آپ گھر بنا سکتے ہیں۔‘

عام مشاہدہ یہ ہے کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں قانونی تقاضے پورے کیے بغیر نت نئے ہاؤسنگ پراجیکٹس کی بھرمار ہے اور اشتہار بازی میں ’آسان قسطوں میں اپنا گھر حاصل کریں‘ جیسے پر کشش الفاظ درج ہوتے ہیں۔ یہ تمام ہاؤسنگ پراجیکٹس اوسطاً ایک لاکھ سے چار لاکھ روپے پیشگی ادائیگی پر پلاٹ، فلیٹ یا اپارٹمنٹ بک کر لیتے ہیں اور بطور ثبوت صارف کو ایک فائل تھما دی جاتی ہے، مگر زمین کا قبضہ نہیں دیا جاتا۔

اگرچہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی  اے) اور لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) سمیت ملک کی بڑی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز اپنی ویب سائٹ اور کبھی کبھار اخباروں میں اشتہار لگا کر غیر لائسنس یافتہ ہاؤسنگ پراجیکٹس سے متعلق عوام کو وارننگ جاری کرتی رہتی ہیں، لیکن انہیں پھلنے پھولنے سے روکنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔

اگر کوئی ہاؤسنگ پراجیکٹ صارف کو پلاٹ کا قبضہ نہ دے تو کیا صرف ایک فائل کی بنیاد پر کوئی قانونی چارہ جوئی ہو سکتی ہے؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب تاحال مطلوب ہے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تین یا چار سال بعد اگر زمین کا قبضہ ملے گا بھی تو اس کے کاغذات میں رجسٹری یا انتقال کے بجائے ہاؤسنگ پراجیکٹ کی اپنی فائل ہوگی، جس پر پلاٹ اور  گلی نمبر وغیرہ درج ہوگا۔ یہ فائل کمرشل بینکوں سے گھر کی تعمیر کے لیے قرضہ لینے کی لازمی شرط پر پورا نہیں اترتی۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت