امریکہ اور سعودی عرب کی عراقی وزیراعظم پر قاتلانہ حملے کی مذمت

عراقی حکام کے مطابق وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی کی رہائش گاہ پر مسلح ڈورن سے حملہ کیا گیا، تاہم وہ محفوظ ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک پیغام میں صبر و تحمل کی اپیل کی ہے۔

عراقی حکام کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے جس میں وہ بال بال بچ گئے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق حکام نے کہا ہے کہ اتوار کی صبح عراقی وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر مسلح ڈرون کی مدد سے حملہ کیا گیا، تاہم وہ محفوظ رہے ہیں اور انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

عراقی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ ڈرون حملے میں عراقی وزیر اعظم کے سات محافظ زخمی ہوگئے۔

حملے کے کچھ دیر بعد وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں  صبر اور تحمل سے کام لینے کی اپیل کی۔ 

انہوں نے لکھا: ’الحمدللہ میں ٹھیک ہوں اور ہر کسی سے کہتا ہوں کہ صبر اور تحمل سے کام لیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’سازش کے راکٹ بہادر سکیورٹی فورسز کی استقامت اور عزم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا پائیں گے۔ میں ٹھیک اور اپنے لوگوں کے درمیان ہوں۔ خدا کا شکر ہے۔’

عراقی حکومت نے ایک بیان میں کہا کہ ڈرون نے الکاظمی کے گھر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’وزیر اعظم ٹھیک اور صحت مند ہیں۔‘

بغداد کے مکینوں نے گرین زون کی طرف سے آنے والی دھماکے اور اس کے بعد گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔ گرین زون میں غیر ملکی سفارت خانے اور حکومتی دفاتر واقع ہیں۔

سرکاری ذرائع ابلاغ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم پر دھماکہ خیز مواد سے لیس ڈرون کی مدد سے ناکام قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ ’ڈرون نے گرین زون میں ان کی رہائش گاہ کو ہدف بنانے کی کوشش کی۔ سکیورٹی فورسز اس حوالے سے ضروری اقدامات کر رہی ہیں۔‘

حملے کے بعد جاری ایک ویڈیو پیغام میں وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت اور ادارے ملک کی ترقی کے لیے کام کرتے رہیں گے۔

امریکہ نے عراقی وزیر اعظم پر ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’بظاہر دہشت گردی کی کارروائی‘ قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس  نے کہا ہے کہ ’ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ وزیر اعظم حملے میں محفوظ رہے۔ یہ بظاہر دہشت گردی کی کارروائی ہے جس کی ہم سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ اس کا مقصد عراقی ریاست کے قلب پر حملہ تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید کہا: ’ہمارا عراقی سکیورٹی فورسز کے ساتھ قریبی رابطہ ہے جن کے کاندھوں پر عراق کی خود مختاری اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری ہے۔ ہم نے حملے کی تحقیقات میں مدد کی پیشکش کی ہے۔‘

سعودی عرب نے بھی حملے کی مذمت کی۔ العربیہ ٹی وی کے مطابق سعودی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اسے  ’بزدلانہ دہشت گردی‘ قرار دیا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ڈرون حملے کے پیچھے کون ہے اور نہ ہی کسی نے فوری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ یہ حملہ ایسا وقت ہوا ہے جب سکیورٹی فورسز اور ایران نواز شیعہ مسلح گروہوں کے درمیان تعطل جاری ہے۔ ان گروہوں کے حامیوں نے تقریباً ایک ماہ سے گرین زون کے باہر کیمپ لگا رکھا ہے۔

اس سے پہلے شیعہ ملیشیاؤں نے عراق میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے وہ نتائج مسترد کر دیے تھے جس میں انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ اس سلسے میں جمعے کو ہونے والے مظاہرے اس وقت پر تشدد ہو گئے جب مظاہرین نے گرین زون کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔ اس موقعے پر ہونے والے فائرنگ کے تبادلے میں مظاہرین میں سے ایک شخص کی موت واقع ہو گئی اور درجنوں سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے۔

وزیر اعظم الکاظمی نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا تاکہ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی وجوہات کا تعین کیا جا سکے اور جانا جا سکے کہ گولی نہ چلانے کے حکم کی کس نے خلاف ورزی کی۔

امریکہ، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل اور دوسروں نے 10 اکتوبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو سراہا تھا جن کے دوران تشدد کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا اور نہ کوئی تکنیکی رکاوٹ پیدا ہوئی۔ الیکشن کے بعد مسلح گروہوں کے حامیوں نے گرین زون کے باہر خیمے لگا لیے اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں تشدد کی دھمکی دی۔

انتخابی دھاندلی کے بلا ثبوت دعووں نے الیکشن کی اہمیت کو متاثر کیا ہے اور ملیشیا کے حامیوں کے ساتھ موجود تعطل کی وجہ سے مخالف شیعہ دھڑوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر دیا ہے جس اظہار سڑکوں پر ممکن تھا اور اس سے حال ہی میں قائم ہونے والی نسبتاً امن کی فضا خطرے میں پڑ سکتی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا