کیا قانون میں شدت پسند تنظیم سے مذاکرات کی شق موجود ہے؟

پاکستان میں آئین و قانون کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی قانون میں اس طرح کی کوئی شق موجود نہیں البتہ معافی کا اختیار صرف صدر پاکستان کو حاصل ہے اور وہ بھی صرف سزا یافتہ مجرمان کے لیے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا بھی ایک اعلامیہ سامنا آیا جس میں انہوں نے بھی مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ فریقین ایک ماہ کی فائر بندی پر متفق ہوئے ہیں (اے ایف پی/ فائل فوٹو)

پاکستان میں حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات کے آغاز اور ابتدائی طور پر جنگ بندی کے اعلان کے بعد یہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا ملک میں حکومت کسی بھی کالعدم شدت پسند تنظیم کے ساتھ قانونی طور پر مذاکرات کر سکتی ہے اور کیا اسے عام معافی کا اختیار حاصل ہے؟

پاکستان میں آئین و قانون کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی قانون میں اس طرح کی کوئی شق موجود نہیں البتہ معافی کا اختیار صرف صدر پاکستان کو حاصل ہے اور وہ بھی صرف سزا یافتہ مجرمان کے لیے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے پیر کو اپنے ریکارڈڈ ویڈیو بیان میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان کی حکومت نے کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے جبکہ اس مذاکراتی عمل میں افغانستان کی عبوری حکومت ’سہولت کار‘ کا کردار ادا کر رہی ہے۔

فواد چوہدری کے بیان کے بعد کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا بھی ایک اعلامیہ سامنا آیا جس میں انہوں نے بھی مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ فریقین ایک ماہ کی فائر بندی پر متفق ہوئے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی ماہرین سے اسی نکتے پر گفتگو کرکے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کے آئین اور قانون میں کیا ایسی کوئی گنجائش موجود ہے جس میں شدت پسند تنظیموں کے ساتھ مذاکرات ممکن ہو سکیں اور مذاکرات کے نتیجے میں ان تنظیموں کے ارکان کو عام معافی دی جاسکے۔

’قانون میں مذاکرات کا ذکر نہیں لیکن صدر مجرمان کو معاف کر سکتے ہیں‘

محمد فہیم ولی سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل اور پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کی جانب سے متعلقہ آئینی یا قانونی شق کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے تاہم آئین یا قانون میں خصوصی طور پر شدت پسند تنظیموں سے مذکرات کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔‘

تاہم فہیم ولی کے مطابق حکومت شاید صدر کے مجرمان کو معافی دینے کے قانونی حق کی بات کررہی ہو۔

انہوں نے کہا کہ صدر کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ کسی کی سزا معاف کرسکتے ہیں۔

فہیم ولی نے بتایا: ’صدر پاکستان کسی بھی مجرم چاہے وہ کسی بھی جرم میں سزایافتہ ہو، آئین کے مطابق اس کی سزا معاف کر سکتے ہیں لیکن یہ اختیار دوران سماعت مقدمات یا انڈر ٹرائل ملزمان پر لاگو نہیں ہوتا۔‘

آئین پاکستان کی آرٹیکل 45 صدر پاکستان کے سزا کو معاف کرنے یا معطل کرنے کے اختیار کے حوالےسے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس شق  میں لکھا گیا ہے: ’صدرکو کسی عدالت، ٹریبونل یا دیگر مجاز اتھارٹی کی دی ہوئی سزا کو معاف کرنے، ملتوی کرنے اور کچھ عرصہ کے لیے روکنے، اس میں تخفیف کرنے یا سزا کو تبدیل کرنے کا اختیارت حاصل ہوگا۔‘

فہیم ولی سے جب پوچھا گیا کہ قانون کے مطابق  کیا حکومت کو ٹی ٹی پی سے مذاکرات یا ایسے کسی بھی قومی مسئلے پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا لازمی ہے؟

اس حوالے سے فہیم ولی نے بتایا کہ ’میری رائے کے مطابق حکومت کے پاس ایگزیکٹیو اتھارٹی موجود ہے اور کسی بھی تنظیم سے مذاکرات کا آغاز یا اس کے لیے اقدمات اٹھا سکتی ہے لیکن کسی بھی نتیجے پر پہنچنے اور فیصلہ کرنے سے پہلے کابینہ یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔‘

گذشتہ روز کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے بھی جاری ایک اعلامیے میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ طالبان اور پاکستان حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوگیا ہے اور نو نومبر سے نو دسمبر تک فائر بندی کا اعلان کیا گیا ہے جس میں اعلامیے کے مطابق فریقین کی رائے اور مذاکرات میں پیش رفت کی بنیاد پر توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔

جبکہ فواد چودھری کے مطابق مذاکرات کے حوالے سے  دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کے افراد کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا اور ان کو قطعی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

 

اسی نکتے پر پاکستان کی حزب اختلاف کی جانب سے بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

پیر کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بغیر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات نہیں کرسکتی۔

سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل اور ماہر قانون طارق آفریدی سمجھتے ہیں کہ آئین میں کالعدم ٹی ٹی پی یا ایسی کسی بھی تنظیم یا کسی ادارے کے ساتھ مذاکرات کا ذکر موجود نہیں ہے اور نہ آئین ان چیزوں کے لیے بنا ہے کہ اس میں مذاکرات کے حوالے سے بات ہوگی۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئین میں دیگر مسائل جیسے کہ کسی شخص کے بنیادی حقوق کو یقینی بنانا یا حکومتی معاملات کو چلانے کے حوالے سے شقیں موجود ہیں اور مذاکرات حکومت کے اختیار میں ہیں اور اس کی پالیسی  یا منشور کے مطابق سیاسی جماعتیں کام کرتی ہیں۔

طارق آفریدی نے بتایا: ’مذاکرات دشمن کے ساتھ بھی ہو سکتے ہیں اور آئین یا قانون میں اس پر کوئی قدغن نہیں ہے لیکن جہاں تک مذاکرات کا ذکر آئین یا قانون میں موجودگی کا ہے، تو اس کا کوئی ذکر آئین میں موجود نہیں ہے۔‘

طارق آفریدی سے جب صدر کے سزائیں معاف کرنے کے اختیار کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ صدر کے پاس مجرمان کی سزائیں معاف کرنے کا اختیار تو موجود ہے لیکن وہ ریاستی معاملات کے حوالے سے یعنی اگر ریاست کے خلاف کوئی جرم ہوا ہے تو اس میں وہ کسی مجرم کی سزا معاف کر سکتے۔

طارق آفریدی نے بتایا: ’اب یہ اختیار تو صدر کے پاس نہیں ہے کہ کسی مجرم نے کسی کو قتل کیا ہے اور اس کے ورثا ان کو معاف نہیں کرتے تو صدر بھی ان کی سزا معاف نہیں کرسکتے۔‘

گذشتہ روز ٹی ٹی پی کے اعلامیے میں مذاکرات پر راضی ہونے کی وجوہات میں لکھا گیا تھا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ مذاکرات جنگ کا حصہ ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کا انکار نہیں کرسکتی، لہذا ٹی ٹی پی ایسے مذاکرات کے لیے تیار ہے جس سے ملک بھر میں دیر پا امن قائم ہو سکے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان