ٹی ٹی پی سے معاہدے کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کی جائیں: اپوزیشن کا مطالبہ

قومی اسبملی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مقامی صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’سب کچھ خفیہ رکھا گیا ہے۔ حکومت کو معاہدے کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کرنی چاہییں کہ کس کے ساتھ کیا طے پایا ہے۔‘

اپوزیشن رہنما شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور محسن داوڑ پیر کو  قومی سلامی کمیٹی کے اجلاس کےبعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے۔ تینوں نے علیحدہ علیحدہ بیانات میں حکومت کے ٹی ٹی پی سے معاہدے پر تحفظات کا اظہار کیا (ویڈیو سکرین گریب: پی ایم ایل این ٹوئٹر اکاؤنٹ )

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات اور طے پانے والے معاہدے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

قومی اسبملی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے حکومت سے مذاکرات اور معاہدے کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔

جنگ اخبار کے مطابق شہباز شریف نے مقامی صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’سب کچھ خفیہ رکھا گیا ہے۔ حکومت کو معاہدے کی تفصیلات پارلیمان میں پیش کرنی چاہییں کہ کس کے ساتھ کیا طے پایا ہے۔‘

اسی طرح اسلام آباد میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پیر کو مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کے کالعدم ٹی ٹی پی سے مذکرات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ کی منظوری کے بغیر ٹی ٹی پی کے ساتھ یکطرفہ معاہدہ نہیں کر سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پارلیمان کی منظوری کے بغیر بنائی گئی کسی پالیسی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔‘

بلاول کے بیان سے کچھ دیر قبل ہی وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اعلان کیا تھا کہ مذاکرات کے بعد حکومت کا ٹی ٹی پی سے جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا ہے، جبکہ ٹی ٹی پی نے بھی ایک بیان میں ایک ماہ کے لیے فائر بندی اور مذاکرات کی تصدیق کی تھی۔

پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک ریکارڈڈ پیغام میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ آئین و قانون کے مطابق ہوں گے۔ انہوں نے کہا تھا: ’ظاہر ہے کوئی بھی حکومت پاکستان کے آئین اور قانون کے باہر مذاکرات کر ہی نہیں سکتی۔‘

بلاول نے کہا کہ وہ حکومت پر تنقید کرتے رہیں گے کیونکہ اس معاملے میں حکومت نے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا: ’وہ کون ہوتے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے بھیک مانگیں اور یکطرفہ طور پر ان سے مذاکرات کریں، جنہوں نے ہمارے فوجیوں، قومی قائد اور اے پی ایس کے بچوں کو شہید کیا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’پارلیمان کی جانب سے منظور شدہ پالیسی بہتر پالیسی ہوگی، جس کی قانونی حیثیت بھی ہوگی۔‘

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’یہ ہمارے علاقوں کو عسکریت پسندی کی طرف دھکیلنے کی کوشش ہے، جسے برادشت نہیں کیا جائے گا۔‘

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ وہ وزیر اطلاعات کے بیان پر حیران ہیں کیونکہ کمیٹی کی بریفنگ میں ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اجلاس میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کی پیش کش کا امکان موجود ہے، مگر یہ نہیں کہا گیا کہ معاہدہ ہوچکا ہے۔‘

انہوں نے بھی کہا کہ ایسے فیصلے پارلیمان کی منظوری سے ہونے چاہییں۔

یاد رہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کا اعلیٰ سطح کا اجلاس پیر کو ہوا جس میں حکومت، اعلیٰ عسکری عہدیدار اور حزب اختلاف کے رہنما شریک ہوئے۔

اراکین نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ریاست، آئین اور قانون کو پوری طرح تسلیم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کا موقع دینے پر اتفاق کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اجلاس میں شامل ایک وفاقی وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’طالبان سے مذاکرات کی تین شرطیں رکھی گئی ہیں۔ نمبر ایک وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں، نمبر دو وہ پاکستان کے شناختی کارڈ بنوائیں اور نمبر تین یہ کہ وہ ہتھیار پھینک دیں۔‘

اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ’قومی مفاد کے معاملے پر اپوزیشن اور حکومت ایک صفحے پر تھی۔‘

اجلاس سے باہر آنے والے ایک اور پارلیمانی رہنما نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے اجلاس کے دوران سیاسی رہنماؤں نے مخالفت نہیں کی۔

ایک اور پارلیمانی رہنما کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی میں اکثریت کی رائے یہی تھی کہ ٹی ٹی پی اگر ریاست، آئین اور قانون کو پوری طرح تسلیم کرے اور ہتھیار ڈال کر اپنی جدوجہد کرتی ہے تو اسے موقع ملنا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان