شدید گرمی ہو یا سخت سردی، پاکستانیوں کا من پسند مشروب، چائے، ہر گھر میں بنتی ہے۔ مہمان آگئے تو چائے پلانا تو لازمی سمجھا جاتا ہے۔ مٹھاس کی شوقین اس قوم کا عالم ایسا ہے کہ اعدادوشمار کے مطابق ہر پاکستانی سالانہ 26 کلو تک چینی استعمال کرتا ہے۔
چینی کے عالمی استعمال کی معلومات جمع کرنے والی ویب سائٹ پروٹیکٹیویٹی ڈاٹ کام کے مطابق پاکستان دنیا میں فی کس چینی استعمال کرنے کے اعتبار سے 28ویں نمبر پر ہے کیوں کہ یہاں کا ہر شہری سالانہ 26 کلو چینی استعمال کرتا ہے۔ یعنی ہر ماہ دو کلو اور ہر روز 72 گرام۔
ذیابیطس کا عالمی دن ہر سال 14 نومبر کو منایا جاتا ہے، یعنی آج بھی پاکستان میں ایک شخص 72 گرام چینی استعمال کرے گا، جو ذیابیطس کی بڑی وجہ مانی جاتی ہے۔
بین الاقوامی ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں۔
انڈیپینڈنٹ اردو نے ذیابیطس کے عالمی دن کے حوالے سے اسلام آباد کے ایک ذیابیطس سینٹر میں کام کرنے والے ماہرین سے خصوصی گفتگو کی تاکہ اس خطرناک بیماری کے بارے میں اہم معلومات اکٹھی کی جا سکیں۔
دا ڈائبٹیز سینٹر میں ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر خضر پرویز نے بتایا پاکستان میں چائے میں چینی کا استعمال اور کولڈ ڈرنکس پینے کا رجحان ذیابیطس کے رجحان میں اضافہ کر رہا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’سفید چینی کا براہ راست استعمال اس وقت شوگر بڑھانے میں بہت کردار ادا کر رہا ہے۔ سفید چینی لوگ بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ چائے کے اندر۔ اس کے علاوہ کولڈ ڈرنکس بہت زیادہ ہیں۔ ان میں چینی بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘
تو کیا اس کا حل براؤن شوگر یا گڑ ہے؟ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ماہر صحت ڈاکٹر نسرین نوید نے کہا کہ چینی چینی ہے، چاہے براؤن شوگر ہو یا گڑ۔ ’نقصان دونوں کا ہی ہے خواہ وہ چینی ہے۔ گڑ ہے۔ شکر ہے۔ شہد ہے۔ کسی بھی شکل میں شوگر ہو وہ مریض کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویب سائٹ ’میو کلنک‘ کے مطابق ذیابیطس ایک مہلک اور دائمی مرض ہے جس میں انسانی جسم میں لبلبہ انسولین کا اہم ہورمون نہیں بنا پاتا ہے، جس کی وجہ سے خون میں گلوکوس (چینی) کی مقدار کنٹرول نہیں ہو پاتی۔ گلوکوس انسانی خلیوں کے لیے توانائی کا اہم ذریعہ ہے، اس کا خون میں زیادہ یا کم ہونا دونوں ہی صحت کے لیے ٹھیک نہیں۔ مرض کی علامات میں پیشاب زیادہ آنا، بھوک زیادہ لگنا، پیاس زیادہ لگنا اور پسینہ زیادہ آنا شامل ہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو اکثر زندگی بھر انسولین کو کنٹرول کرنے کے لیے گولیاں کھانی پڑتی ہیں اور زیادہ شدید کیسوں میں انسولین کے انجیکشن لگانے پڑتے ہیں۔ ذیابیطس وقت کے ساتھ ساتھ آنکھوں، پٹھوں، اعصاب، گردے اور ہاتھوں پیروں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ کچھ مریض کو پیروں یا ہاتھوں کی انگلیوں میں گینگرین بھی ہو جاتا ہے، جس سے کبھی کبھی انہیں کاٹ دینا پڑتا ہے۔
ذیابیطس کے سینٹر میں مصنوعی اعضا بنانے والے محکمے کے سربراہ کامران سلیم اعوان نے بتایا کہ شوگر کی وجہ سے پاؤں میں بہت زیادہ جلن ہونا، اس کی شکل میں تبدیلی ہو جانا یا پھر پاؤں اتنے سونا شروع ہو جانا کہ جوتے اتر جائیں لیکن آپ کو احساس نہ ہو تو یہ خطرناک علامات ہیں۔
ذیابیطس کے علاج میں انسولین کا کردار
دا ڈائبٹیز سینٹر سے منسلک ڈاکٹر حسنین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لبلبے میں انسولین قدرتی طور پر بنتی ہے، لیکن جب ذیابیطس کے مرض کی وجہ سے انسولین بننا ختم ہو جائے تو پھر انسولین کو انجیکشن کی صورت میں دینا پڑتا ہے۔
برطانوی تنظیم ذیابیطس یو کے کے مطابق 1921 میں سر فریڈرک جی بانٹنگ، چارلس ایچ بیسٹ اور جے جے آر میکلوڈ نے یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں انسولین دریافت کی تھی، جس کے بعد مریضوں کو دینے کے لیے اس کی پیدوار بھی شروع ہوگئی۔
2021 میں اس اہم دریافت کو پورے ایک سو سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن مصنوعی انسولین اب بھی مہبگی ہے اور تاحال کئی ممالک میں غریب مریضوں کی اس تک پہنچ محدود ہے۔ اسلام آباد کا دا ڈائبٹیز سینٹر مستحق مریضوں تک انسولین مفت پہنچانے کے مشن پر بھی کاربند ہے۔
ڈاکٹر حسنین نے بتایا: ’ہمارے ہاں رجسٹر ہونے والے مستحق مریضوں کو انسولین کی خوراک مفت فراہم کی جاتی ہے۔ گذشتہ ایک سال میں تقریباً ستائیس سو مستحق مریضوں کو انسولین کی خوراکیں مفت فراہم کی گئی ہیں۔‘