اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلایا تو ضرور جاؤں گا: ثاقب نثار

عدالت نے سابق جج رانا شمیم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے منگل 16 نومبر کو طلب کر لیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت کا ایک منظر (تصویر:  بشکریہ اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ)

سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے پیر کو انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے الزامات کے بعد ازخود نوٹس کی سماعت پر انہیں عدالت بلایا گیا تو وہ ضرور جائیں گے۔

سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا کہ ’پاکستان کی عدالت ہے مجھے یہ زعم نہیں کہ میں بہت بڑا ہوں اگر قانونی حکم نامہ آیا تو بسم اللہ ضرور جاؤں گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس معاملے کو چار سال ہو چکے ہیں، علم نہیں کس سازش کے تحت یہ الزام لگایا گیا ہے۔‘

ثاقب نثار نے کہا ’میں کیوں کسی بھی کیس کے حوالے سے خصوصاً ہائی پروفائل کیس کے بارے میں عدالت سے باہر کسی کو ہدایات دوں گا؟‘

آج اس مقدمے کی سماعت پر کیا ہوا؟

نوازشریف اور مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق سابق جج کے انکشافات کے معاملے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے مختصر سماعت میں کہا کہ اگر اس عدالت کے غیر جانبدارانہ فیصلوں پر اسی طرح انگلی اٹھائی گئی یہ اچھا نہیں ہوگا۔

عدالت نے سابق جج رانا شمیم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے منگل 16 نومبر کو طلب کر لیا ہے۔

سوموار کی سہ پہر اسلام آباد ہاآئی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے معروف صحافی انصار عباسی کی خبر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسلام آباد ہائی کورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کو کمرہ عدالت میں طلب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’یہاں پر آپ کے سامنے بہت سارے کیسز زیر سماعت ہیں کوئی انگلی اٹھا کربتائے مجھے اس عدالت کے ہر جج ہر فخر ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس قسم کی رپورٹنگ سے مسائل پیداہوں گے۔ اس عدالت نے ہمیشہ اظہار رائے کی قدر کی ہے اور اظہار رائے پر یقین رکھتی ہے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’یہ عدالت آپ سب سے توقع رکھتی ہے کہ لوگوں کا اعتماد اداروں پر بحال ہو۔ زیر سماعت کیسسز پر اس قسم کی کوئی خبر نہیں ہونی چاہیے۔‘

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیوں نہ ہائیکورٹ کا وقار مجروع کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی کا آغازکریں؟ ایک معاملہ زیر التوا ہے اس میں اس طرح کی رپورٹنگ ہوگی تو یہ کوئی مناسب بات ہے؟

’عدالت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے گی کیونکہ زیر التوا کیسز پر بات کرنے کی روش بن گئی ہے۔‘

عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے جبکہ جس صحافی نے خبر دی اس کو اور جنگ اخبار کے ایڈیٹر انچیف کو بھی نوٹس جاری کر دیا ہے۔

عدالت نے تحریری حکم نامے میں لکھا کہ رجسٹرار ہائی کورٹ نے معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھا ہے۔

ایسے میں جب نواز شریف کی اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں، اس موقع پر ایسی خبر کی اشاعت سماعت پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ جوڈیشل ریکارڈ میں ایسے کسی بیان حلفی کا ذکر نہیں ہے۔ ایسے موقع پراس طرح کی خبر کی اشاعت توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب ںثار کا موقف

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے رانا شمیم کے بیان حلفی کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے صحافیوں کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’کبھی کسی عدالت یا جج کو نواز شریف سے متعلق ہدایات جاری نہیں کیں۔ رانا شمیم کا بیان حلفی سراسر بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔‘

واضح رہے کہ جنگ اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا ایم شمیم نے اپنے مصدقہ حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ اس واقعے کے گواہ تھے جب اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے۔‘

کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم نے یہ بیان اوتھ کمشنر کے روبرو 10 نومبر 2021 کو دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ رانا شمیم بطور چیف جسٹس جی بی اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے تھے لیکن رانا شمیم کو توسیع دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔

ثاقب نثار کے بقول رانا شمیم نے توسیع نہ دینے پر شکوہ بھی کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میرے خلاف خبریں کون چلواتا ہے سب معلوم ہے۔ گذشتہ دنوں ایک تعلیمی ادارے کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ رانا شمیم کا بیان میری تقریر کا ردعمل لگتا ہے۔

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا شمیم کا موقف 

دوسری جانب گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے صحافی مریم نواز سے گفتگو میں وضاحت کی کہ’صحافی انصار عباسی سے کی گئی تمام باتوں پر قائم ہوں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس قانون کےمطابق مجھے ایکسٹینشن دینے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ مجھے ایکسٹینشن مانگنے کی کوئی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوئی۔ ثاقب نثار کون ہوتے ہیں مجھے ایکسٹینشن دینے والے۔‘

رانا شمیم نے بتایا ’سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار گلگت میں میرے مہمان تھے میں نے ان کے آنے پر کوئی سرکاری خرچ نہیں کیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ قانوناً گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے سپریم کورٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے ماتحت نہیں ہیں۔

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو ایکسٹینشن دینا وزیراعظم کا اختیار ہے۔ رانا شمیم نے 10 نومبر والے حلف نامے کے بارے میں سوال پوچھے جانے پر کہا کہ حلف نامہ کب اور کس کو دیا یہ ابھی نہیں بتا سکتا۔

خبر منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ردعمل جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’اندازہ لگائیں کے آپ کسی جج کے پاس چائے پینے جائیں وہ آگے سے فون ملا کر بیٹھا ہو اور آپ کے سامنے ہی ایسی ہدایات جاری کرے کہ کسی ملزم کی ضمانت لینی ہے یا نہیں لینی! ملزم بھی کوئی عام آدمی نہیں بلکہ ملک کا وزیراعظم ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان