زندگی ایک بار ملتی ہے، اسے نفرتوں اور اختلافات میں ضائع کرنے کے بجائے محبتیں بانٹیں اور بعض دفعہ کچھ چیزوں کو، چند باتوں کو، کچھ لوگوں کو نظرانداز کر کے سکون پائیں۔
یہ ضروری نہیں کہ ہم ہر عمل کا ردعمل دکھائیں۔ ہمارے بعض ردعمل صرف اور صرف ہمن ہی کو نقصان دے سکتے ہیں، لیکن جہاں اپنے حق کے لیے بولنا لازم ہو جائے وہاں چپ رہنا کسی اور کے ساتھ زیادتی ہو نہ ہو اپنی ذات کے ساتھ زیادتی ضرور ہے۔
بےحسی ہمارے معاشرے میں ایسے رچ بس گئی ہے کہ ہمیں صحیح اور غلط کا فرق بھی معلوم نہیں ہوتا۔ کسی کی تکلیفوں کا اندازہ لگانا تو دور، ہم سننا گوارا نہیں کرتے۔
انسان اتنا سنگدل کیسے ہو سکتا ہے کہ جہاں اسے اپنے حق کے لیے بولنا چاہیے وہاں وہ چپ سادھ لیتا ہے۔ اردو کے معروف شاعر قتیل شفائی نے شاید اسی موقعے کے لیے شعر کہا تھا:
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے، بغاوت نہیں کرتا
’باجی یہ تو ظلم ہے،‘ یہ وہ جملہ تھا جس نے مجھے یہ تحریر لکھنے پہ مجبور کیا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے ساتھ والے مکان میں ایک فیملی کرائے پر رہنے آئی۔
اس عورت کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ بیٹیاں شادی شدہ تھیں۔
میں نے جب بھی اس عورت کو دیکھا اس کا چہرہ سہما سہما دیکھا۔ میں نے کبھی اس عورت کی اونچی آواز نہیں سنی تھی کیونکہ اس کا شوہر بہت سخت مزاج تھا۔
اس گھر میں پانی کا مسئلہ تھا لہٰذا پانی کا ٹینکر منگوا کے استعمال کیا جاتا تھا۔
ایک دن پانی کا ٹینکر آیا۔ میں نے سوچا غریب فیملی ہے، اس لیے کچھ پیسے میں نے پانی کے دیے اور اس عورت سے کہا کہ باقی کے 400 روپے آپ دے دیں۔
پانی ٹینکی میں ڈالنے سے پہلے میں نے انہیں کہا کہ پینے کے لیے ایک واٹر کولر بھر لیں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔
جب میں نے اس عورت کو 400 روپے دینے کا کہا تو اس نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا، ’باجی یہ تو ظلم ہے۔ میں نے ایک کولر بھرا، آپ نے 400 روپے دلوا دیے؟‘
مجھے اس کی معصومیت پہ ہنسی آئی۔ میں نے کہا ’آپا، یہ جو پانی ٹنکی میں ڈالا گیا ہے یہ بھی آپ کا ہی ہے جو آپ روزانہ استعمال کریں گی۔ ایک واٹر کولر کے پیسے 400 روپے نہیں ہیں۔ پوری ٹینکی کے پانی کے ہیں۔‘
تب اس نے خوشی سے کہا: ’او اچھا باجی، خفا نہیں ہونا۔‘
میں نے کہا کوئی بات نہیں مجھے خوشی ہے کہ آپ کو یہ بولنا بھی تو آیا کہ یہ تو ظلم ہے پر میری ایک بات کا جواب دیں یہ جو آپ اپنی فیملی میں سہہ رہی ہیں یہ کیا ہے؟
بیٹا ماں کے منہ پہ تھپڑ مار رہا ہے اور شوہر آپ پر ہاتھ اٹھا رہا ہے (صرف اس لیے کہ گیٹ آپ نے کیوں کھلا چھوڑا) کیا یہ ظلم نہیں؟‘
میری بات سن کے میرا ہاتھ پکڑ کے بولی، ’باجی میرا شوہر میرے سے بہت پیار کرتا ہے۔ بس کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے اس لیے اسے غصہ زیادہ آتا ہے۔‘
میں نے پھر سوال کیا، ’اور جو بیٹے نے آپ کے منہ پہ تھپڑ مارا وہ کیا تھا؟‘
وہ عورت مسکراتے ہوئے بولی، ’باجی میرا وہ بیٹا بچپن سے ہی غصے والا ہے۔ میں جب غلطی کر جاتی ہوں تو اس کو غصہ آتا ہے پر میرے سے پیار بہت کرتا ہے۔‘
اس کے جواب سن کے میں حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی کہ وہ کس طرح اپنے شوہر اور بیٹے کا دفاع کر رہی تھی۔ وہ میری بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے مزید دلائل دینے لگی۔
ایسی بھی عورتیں ہمارے معاشرے میں ہیں جو اچھا برا صحیح غلط، سچ جھوٹ جانتے ہوئے بھی ان سب سے لاعلم ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میرے خیال میں 400 روپے کے لیے اس کا کہنا کہ باجی یہ تو ظلم ہے اس بات کی عکاس کر رہا تھا کہ اسے ظلم اور جبر کی پہچان ضرور ہے مگر اپنی ذات کے معاملے میں وہ بالکل اس سے لاعلم ہے یا لاعلم رہنا چاہتی ہے۔
خیر کچھ دن بعد مکان کے باہر ایک ٹرک کھڑا تھا جس پر ان کا سامان لادا جا رہا تھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ یہاں سے منتقل ہو رہے ہیں۔
خدا حافظ کہنے وہ میرے گھر آئی۔ میں خوش اسلوبی سے اس سے ملی مگر وہ نظریں چرا رہی تھی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
میں نے اس کا ہاتھ تھام کر کہا، ’آپا اپنی زندگی اپنی ذات کا بھی انسان کو سوچنا چاہیے نا۔ جب تک آپ کسی کو اپنی خوشی یا اپنے غم کا احساس نہیں دلائیں گی کوئی آپ کی قدر نہیں کرے گا۔‘
وہ پھر کچھ بولنے کے لیے میری طرف دیکھی پر صرف مسکرا کر چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں وہیں بیٹھ گئی۔ ایک عورت کو اپنے خاوند سے کیا چاہیے ہوتا ہے؟ ایک ماں کو اپنے بیٹے سے کس چیز کی امید ہوتی ہے؟
شاید یہ خواہش یا مطالبات اس عورت نے کہیں دفن کر دیے تھے۔