’پیداوار میں 61 فیصد اضافے کے باوجود کپاس درآمد کرنا پڑے گی‘

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے کپاس کی پیداوار میں تقریباً 61 فیصد اضافے کو خوش آئند تو قرار دیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ یہ کافی نہیں۔

محکمہ زراعت کے مطابق رواں سال کپاس کی پیداوار گذشتہ سال کی 56 لاکھ گانٹھوں سے بڑھ کر 90 لاکھ گانٹھیں ہوئی (اے ایف پی)

پاکستان میں رواں سال کپاس کی کاشت میں کمی کے باوجود پیداوار میں گذشتہ 10 سالوں کے مقابلے میں تقریباً 61 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

محکمہ زراعت کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں رواں سال کپاس کی پیداوار گذشتہ سال کی 56 لاکھ گانٹھوں سے بڑھ کر 90 لاکھ گانٹھیں ہوئی۔ ڈائریکٹر کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق یہ 60.7 فیصد کا اضافہ ہے۔

اس سے قبل پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعدودوشمار میں کہا گیا تھا کہ 15 نومبر تک ملک کی مختلف کاٹن ملز کو 68 لاکھ سے زائد گانٹھیں موصول ہوئیں، جو گذشتہ سال کی 40 لاکھ گانٹھوں سے 70 فیصد زیادہ ہیں۔  

تاہم ٹیکسٹائل انڈسٹریز مالکان کے مطابق یہ پیداوار بھی ضرورت کے مقابلے میں کم ہے۔ ان کے مطابق چین اور امریکہ سے دو ارب ڈالرز کی کپاس درآمد کرنا پڑے گی جبکہ گذشتہ سال ڈیڑھ ارب ڈالرز کی درآمد کی گئی تھی۔

ٹیکسٹائل انڈسٹریز مالکان کے بقول قیمتیں بڑھنے اور طلب میں اضافے کے باعث اس سال کپاس کی درآمد بھی زیادہ ہوگی، لیکن کپاس کی پیداوار اور قیمتوں میں اضافے سے کاشت کاروں کو ضرور فائدہ ہوگا جس سے کپاس کی کاشت آئندہ سال زیادہ ہونے کا امکان ہے۔

وجوہات کیا؟

سرکاری ادارے سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر صغیر احمد کے مطابق رواں سال کپاس پہلے کے مقابلے پر کم رقبے پر کاشت کی گئی پھر بھی اس کی پیداوار زیادہ رہی۔

سرکاری اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پیداوار میں تقریباً 60 فیصد کا اضافہ اس بات کے باوجود ہوا کہ اس سال گذشتہ سال کے 56 لاکھ ایکڑ کے برعکس کاشت صرف 47 لاکھ ایکڑ پر ہوئی۔

اس اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سال مصدقہ بیج کے علاوہ کوئی اور بیج کاشت کرنے پر سختی کی گئی۔

اس کے علاوہ موسم موزوں رہا، دکھن کی ہوائیں چلیں، بجائی کے وقت بارشیں کم ہوئیں اور سفید سنڈی کا حملہ بھی کم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ فصلوں کی پیداوار کا دارومدار زیادہ تر موسمی حالات پر ہوتا ہے، اس لحاظ سے اب بھی پیداوار سات، آٹھ لاکھ گانٹھیں کم ہوئی ہیں لیکن پھر بھی گذشتہ سالوں کی نسبت اس سال پیداوار میں اضافہ خوش آئند ہے۔

ان کے خیال میں پنجاب اور سندھ کی پیداوار برابر رہی لیکن پنجاب میں کاشت زیادہ تھی اس کا مطلب موسم سندھ میں پنجاب سے بہتر رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال کپاس کی قیمت بھی زیادہ ہے جو سات سے آٹھ ہزار روپے فی من رکھی گئی ہے اور قیمت میں اس اضافے سے کاشت کاروں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے فصل پر توجہ بھی پہلے سے زیادہ دی۔

درآمد کم کیوں نہیں ہوگی؟

دوسری جانب آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے عہدے دار علی پرویز نے پیداوار میں 70 فیصد اضافے کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے زیادہ فائدہ مند قرار نہیں دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومتی وعدوں کے مطابق کپاس کی پیداوار میں جتنا اضافہ ہوا ہے اس کے مطابق ہی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

’دوسری بات یہ کہ گذشتہ 10 سالوں کے اعدادوشمار دیکھیں تو یہ پیداوار ان کے مقابلے میں زیادہ ضرور ہے لیکن ہماری ضروریات کے مطابق نہیں۔‘

علی پرویز کے بقول گذشتہ سال ٹیکسٹائل مالکان کو چین اور امریکہ سے ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کپاس درآمد کرنا پڑی مگر اس سال زیادہ قیمتوں اور طلب میں اضافے کے باعث دو ارب ڈالرز کی کپاس درآمد کرنا پڑے گی۔

’اس لحاظ سے ہماری انڈسٹری کو کپاس کی مجموعی پیداوار سے خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ جب تک ہماری پیداوار طلب کو پورا نہیں کرے گی درآمد جاری رہے گی اور پھر اس پیداوار کا خاص فائدہ نہیں ہوسکے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت