ناراض بلوچ چند ماہ میں واپس لوٹ آئیں گے: بزنجو

اکتوبر میں منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت سب دھڑوں کو ’ساتھ لے کر چل رہی ہے‘ تاکہ صوبے میں امن قائم ہوسکے۔

 بلوچستان  کے وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت علیحدگی پسندوں سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے اور امید ظاہر کی کہ جو ناراض بلوچ باہر ہیں وہ ’چند ماہ‘ کے دوران ملک اور صوبے میں واپس آکر اس کی بہتری کے لیے کام کریں گے۔
عرب نیوز کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں بلوچستان اسمبلی کے سابق سپیکر اور نو منتخب وزیراعلیٰ نے صوبے کے بنیادی مسائل پر بات کی، جن میں سے سب سے قابل ذکر مسئلہ علیحدگی پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کا ہے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے بزنجو نے کہا کہ ان کی حکومت ان سب لوگوں سے بات کر رہی ہیں جو ریاست سے ’ناخوش‘ ہیں، ان میں ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ بھی شامل ہیں، جو بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے سربراہ ہیں۔ 

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کو ریاست کی طرف سے اس معاملے میں مکمل اختیار دیا گیا ہے کہ بات چیت سے مسئلے کا حل تلاش کریں۔

اکتوبر میں بلامقابلہ منتخب ہونے والے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کی ان کی حکومت سب دھڑوں کو ’ساتھ لے کر چل رہی ہے‘ تاکہ صوبے میں امن قائم ہوسکے۔

بزنجو نے زور دیا کہ ان کی حکومت جب سے آئی ہے وہ علیحدگی پسندوں سے بات چیت کررہی ہے۔

’ان کی شکایات ضرور ہوں گی جس کی وجہ سے وہ ناخوش ہیں، (مگر) بات چیت کا دروازہ بند نہیں ہونا چاہیے، ہم ان سے بات کر رہے ہیں اور دوسرے چینل بھی کھلے ہیں۔‘

اس سوال پر کہ آیا وہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ سے رابطے میں ہیں، پر ان کا کہنا تھا: ’ براہ راست تو نہیں، مگر بالواسطہ ہماری کوشش ہے کہ ہم یہ (بات چیت) کریں اور دوسروں سے بھی، چاہے وہ جو بھی ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ان سے بات کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مانا جاتا ہے کہ بی ایل ایف کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ واحد علیحدگی پسند رہنما ہیں جو بلوچستان کے اندر سے ہی علیحدگی کی مہم چلا رہے ہیں۔ علیحدگی پسند بلوچستان ریپبلکن آرمی کے سربراہ اور بلوچ لیبریشن آرمی کے سربراہ حیربیار مری یورپ میں جلاوطنی میں ہیں۔ 

وزیراعلیٰ نے اس خیال کا اظہار کیا کہ اس وقت اس عمل کے بارے میں گہرائی سے بات کرنا ممکن نہیں ہوگا مگر انہوں نے امید ظاہر کی کہ جو ناراض لوگ باہر ہیں وہ ’چند ماہ‘ کے دوران ملک اور صوبے میں واپس آکر اس کی بھلائی کے لیے کام کریں گے۔

ان کا کہنا تھا: ’بلوچستان کے عوام کو جلد ہی اچھی خبر ملے گی۔‘

صوبے کے دوسرے اہم مسئلے، جبری گمشدگیوں، کے بارے میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا ایک سال کے دوران ایک سیل اس مقصد کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا: ’ایک سال کے دوران 180 خاندانوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔‘

صوبے میں فوج کی موجودگی سے متعلق سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومتوں کا فوج سے مدد لینا کوئی نقصان دہ بات نہیں اور یہ صرف سکیورٹی خدشات کے باعث لیا جانے والا قدم ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’وہ ہماری افواج ہیں، ہمیں کوئی آر نہیں کہ وہ ہمارے پاس آئیں اور ہمیں امن و امان اور دیگر معاملات میں معاونت فراہم کریں۔ جہاں جہاں ہمیں یہ محسوس ہوا کہ امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کی ضرورت ہے ہم نے ان سے گزارش کی، ہم نے فوج کی مدد لی۔‘

حال ہی میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافے پر بزنجو کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تبدیلی کی وجہ سے بلوچستان میں بھی اثرات دیکھنے آئے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا: ’جب بھی افغانستان میں چیزیں تبدیل ہوتی ہیں تو اثرات بلوچستان میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ وہاں پر تبدیلی کے باعث یہاں بھی بہت سے عناصر آگئے ہیں اور مختلف طرح کی دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ سب کچھ ہمارے سامنے ہے، ہم کچھ ماہ سے دیکھ سکتے ہیں کہ امن و امان کی صورت حال بہت تیزی سے بگڑی ہے۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ صوبے میں نئے ترقیاتی منصوبوں سے صورت حال بہتر ہوگی، خاص طور پر وفاقی حکومت کے اعلان کردہ شمالی بلوچستان پراجیکٹ سے جس میں 601 ارب روپے کے 199 منصوبے ہوں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست