کیا آپ شراب پیتے ہیں؟ ایک مصری اور ایک پاکستانی کا جواب

جب ٹیلی ویژن پر ایک ہی سوال دو شخصیات سے پوچھا گیا تو ان کے جوابات بالکل مختلف نکلے۔

ویڈیو میں صحافی غریدہ فاروقی (دائیں) سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے صاحبزادے اور سپریم کورٹ کے وکیل احمد حسن رانا  (بائیں) سے پوچھ رہی ہیں کہ وہ اس سے پہلے کاشف عباسی کے پروگرام میں اپنے گلاس سے کچھ پی تو رہے تھے (ویڈیو سکرین گریب/غریدہ فاروقی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

میرے سامنے دو ویڈیوز موجود ہیں۔

پہلی ویڈیو مصر سے ہے۔ اس میں ایک صحافی مصری فٹ بالر محمد صلاح سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا آپ شراب پیتے ہیں؟

اس سوال کے جواب میں لیور پول کلب کی طرف سے فٹ بال کھیلنے والے محمد صلاح نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ انہیں کبھی شراب پینے کی خواہش نہیں ہوئی، وہ نہ شراب پینا چاہتے ہیں اور نہ شراب پینے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ اس انٹرویو کے بعد ان پر مصر میں کافی تنقید کی گئی۔

معترضین کا کہنا تھا کہ محمد صلاح نے اپنے جواب میں اسلام کے شراب نوشی کو حرام قرار دینے کی بات کیوں نہیں کی، انہوں نے اپنے شراب نہ پینے کو اپنی مرضی سے کیوں جوڑا۔

اس کے بعد مصر کے ایک سرکاری دارالافتا نے اپنے فیس بک پیج پر ایک پوسٹ میں شراب کے حرام ہونے کے مذہبی احکامات شیئر کیے۔

اس پوسٹ کے جواب میں مصر کے ایک صحافی احمد القاعود نے ہنستے ہوئے ایموجی کے ساتھ لکھا کہ محمد صلاح سن لو۔

دوسری ویڈیو پاکستان سے ہے۔ یہ بھی ایک انٹرویو ہے۔

اس میں صحافی غریدہ فاروقی سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے صاحبزادے اور سپریم کورٹ کے وکیل احمد حسن رانا سے پوچھ رہی ہیں کہ وہ اس سے پہلے کاشف عباسی کے پروگرام میں اپنے گلاس سے کچھ پی تو رہے تھے۔

جواب میں احمد حسن اپنے سامنے پڑا ہوا گلاس اٹھاتے ہیں اور اس میں موجود مشروب کا گھونٹ بھرتے ہیں۔

پھر غریدہ فاروقی سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے کیمرہ مین کو بھیجیں۔ وہ ان کے مشروب کو پی کر بتا دیں کہ وہ وسکی ہے یا ایپل جوس۔ غریدہ فاروقی ان سے کنفرم کرتی ہیں کہ وہ ایپل جوس پیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ انہیں بہت شوق ہے، شراب حلال ہوتی تو ان سے زیادہ کوئی نہ پیتا، لیکن چونکہ حرام ہے تو وہ نہیں پیتے لیکن جنت میں جا کر ضرور پییں گے۔

اس کے بعد وہ غریدہ فاروقی سے کہتے ہیں کہ وہ ان کے لیے دعا کریں کہ وہ جنت میں جائیں تاکہ وہاں اپنا شراب نوشی کا شوق پورا کرسکیں۔

یہ ویڈیو پاکستان میں بہت وائرل ہوئی۔ لوگوں نے ہنستے ہوئے ان کی وہ ویڈیو فیس بک اور ٹوئٹر پر شیئر کی۔ ایک صارف نے ٹوئٹر پر اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس کہنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی ہنسی کو قابو نہیں کر پا رہے۔

ان دونوں ویڈیوز میں سوال ایک ہی تھا لیکن اس کے جواب مختلف تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محمد صلاح کا جواب ترقی پسندانہ تھا۔ انہوں نے اسلام کا ذکر کیے بغیر اپنی پسند ناپسند کے مطابق جواب دیا، جو مصر میں کچھ ایسے لوگوں کو پسند نہیں آیا۔

البتہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ محمد صلاح نے یہ جواب اپنے سپانسرز کو ناراض نہ کرنے کے لیے دیا ہے۔

وجہ چاہے جو بھی ہو، ہمیں محمد صلاح کے جواب میں ایک واضح دو ٹوک انداز نظر آتا ہے۔ انہیں ایک چیز پسند نہیں، وہ اس وجہ سے نہ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، نہ اس کا استعمال کرتے ہیں۔

دوسری طرف احمد حسن رانا نے اپنے جواب میں مذہب کا سہارا لیا۔ ان کا جواب بھی پاکستان میں کچھ لوگوں کو پسند نہیں آیا۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان ترقی پسند ہے۔ پریانتھا دیاودھنہ کی جلی ہوئی لاش ہم نے کچھ دن پہلے ہی سری لنکا کو بھیجی ہے۔

یہ تو بس ایک چھوٹی سی اقلیت ہے جو ایک ترقی پسند معاشرے کا خواب دیکھتی ہے، جو مذہب کو ایک انسان کا ذاتی معاملہ سمجھتے ہوئے اس کی عوامی سطح پر تشہیر نہیں کرتی۔ 

رانا صاحب کو اسلام کا سہارا لیتے ہوئے شاید یاد نہیں رہا کہ وہی اسلام مسلمانوں کو غیر مسلمانوں کی مشابہت اختیار کرنے سے بھی روکتا ہے۔

خیر، اس بارے میں کیا کہنا۔ رانا صاحب تو محض مثال ہیں۔ ہم سب بھی ان جیسے ہی ہیں۔ ہم سے جہاں کوئی جواب نہیں بن پاتا، وہاں ہم مذہب کو جڑ دیتے ہیں، چاہے وہ فٹ آ رہا ہو یا نہ آ رہا ہو۔

بظاہر وہ ایک چھوٹی سی بات ہوتی ہے لیکن اس بڑے منظر نامے میں دیکھا جائے تو وہ کہیں نہ کہیں ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہم آج بھی ترقی کے میدان میں باقی دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔

اپنی مرضی اور مطلب کے مذہب کو بچاتے بچاتے آج ہم صرف ٹوئٹر کے صارف بنے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے پڑوسی ملک کا ایک شہری اس کا سی ای او بن چکا ہے۔

سالوں بعد بھی ہم ایسے ہی کنفیوزڈ ہوں گے۔ دنیا کہیں کی کہیں پہنچ چکی ہوگی اور ہم گلاس میں ایپل جوس انڈیل رہے ہوں گے۔

ہمیں اپنی اس کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے محمد صلاح کا دو ٹوک انداز اپنانا ہوگا جو گول کرنے پر سجدے میں گر پڑتا ہے لیکن ہر جگہ مذہب کا چورن نہیں بیچتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ