مصنوعی ہاتھ حاصل کرنے والی سب سے کم عمر تین سالہ پاکستانی بچی

مومنہ کے والدین کے مطابق زیادہ تر لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے مصنوعی اعضا جلد کی رنگت کے ہوں لیکن انہوں نے اپنی بیٹی کو اس کی مرضی کے مطابق اس کے پسندیدہ کردار فروزن کی شہزادی ایلسا جیسا ہاتھ بنوا کر دیا۔

گذشتہ ہفتے اپنا نیا بازو حاصل کرنے کے بعد کمپنی بائیونکس کے مطابق مومنہ یہ جدید مصنوعی عضہ پانے والی کم عمر ترین فرد بن گئی ہیں(تصویر: عرب نیوز)

تین سالہ مومنہ عامر کے والد اس وقت اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے جب رواں سال اگست میں ان کی بیٹی مومنہ، جس کا پیدائشی طور پر دائیاں بازو نہیں، نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ٹھیک طرح سے نماز ادا کرنے کے لیے ان کا ہاتھ استعمال کر سکتی ہے؟

مومنہ کے والد عامر عباس نے اس لمحے سے اس بات کا تہیہ کر لیا کے وہ اس کا حل ضرور تلاش کریں گے، اور یہ حل انہیں ملا اس نیلے رنگ کے بائیو نک بازو میں جو مومنہ کی خواہشات کے عین مطابق بنایا گیا تھا۔ مومنہ اینی میٹڈ فلم فروزن کی شہزادی ایلسا کی بہت بڑی مداح ہیں۔

عامر عباس نے عرب نیوز کو بتایا: ’میں نماز پڑھ کے اٹھا تھا کہ مومنہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ بابا مجھے اپنا ہاتھ دے دیں تاکہ میں بھی آپ کی طرح نماز پڑھ سکوں۔ میرے لیے اس احساس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ مومنہ کی زندگی میں اتنی بڑی کمی محسوس کی جا رہی تھی۔ اس بات نے مجھے اس کا حل تلاش کرنے پر مجبور کیا۔‘

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں تقریباً تین کروڑ افراد کو مصنوعی اعضا کی ضرورت ہے لیکن ان میں سے صرف 20 فیصد کے لیے ہی انہیں حاصل کرنا ممکن ہو سکتا ہے جس کی وجہ ان پر آنے والی لاگت اور ان کا وزن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کراچی کے آغا خان ہسپتال کے مطابق پاکستان میں پیدا ہونے والے ہر 20 میں سے ایک بچے کا ہاتھ کسی نہ کسی طرح سے متاثر ہوتا ہے۔

کراچی میں فعال کمپنی بائیو نکس کی مدد سے عامر عباس اپنی بیٹی کے خواب کو سچ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

مومنہ سے قبل چار سالہ محمد صدیق کو بھی بائیونکس نے ہی مصنوعی بازو مہیا کیا تھا۔ کمپنی کے مطابق یہ ان کے لیے ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ 

تاہم گذشتہ ہفتے اپنا نیا بازو حاصل کرنے کے بعد مومنہ یہ جدید مصنوعی عضو پانے والی کم عمر ترین فرد بن گئی ہیں۔

بائیونکس کے شریک بانی اویس حسین قریشی کہتے ہیں کہ ’مومنہ کے معاملے میں تمام چیزوں کو ایک ساتھ ممکن بنانا کافی مشکل تھا کیونکہ ان کا ہاتھ تھا ہی نہیں۔ انہیں اس ہاتھ کو استعمال کرنے کے احساسات سے آگاہی حاصل نہیں تھی۔‘

اویس حسین قریشی کے مطابق جب مومنہ کو اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں موڑنے کا کہا گیا تو انہیں ایسا کرنے کے لیے پورا ہاتھ ہلانا پڑتا تھا۔ لیکن مومنہ بہت ذہین ہیں اور انہیں اس مصنوعی بازو کو استعمال کرنے کے حوالے سے ٹیم کو سمجھانے میں مشکل نہیں ہوئی۔

مومنہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ مومنہ چاہتی تھیں کہ ان کا بازو بھی فروزن فلم کی پرنسز ایلسا کی طرح ہو۔

مومنہ کے والدین کے مطابق زیادہ تر لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کے مصنوعی اعضا جلد کی رنگت کے ہوں لیکن انہوں نے اپنی بیٹی کو اپنی مرضی کے مطابق بازو کا رنگ چننے دیا۔

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس