امریکی حکومت کی جولین اسانج کی حوالگی کی اپیل منظور

اسانج کو 2010 میں وکی لیکس کی طرف سے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگوں سے متعلق خفیہ فوجی دستاویزات کی اشاعت سے متعلق مقدمے کا سامنا ہے۔

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج 19 مئی 2017 کو لندن میں اکواڈور کے سفارتخانے کی بالکونی میں کھڑے ہوکر گفتگو کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

امریکی حکومت نے جمعے کو لندن کی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل جیت لی جس میں معروف ویب سائٹ وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی برطانیہ سے حوالگی کو روک دیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق واشنگٹن نے لندن کی عدالت کی جانب سے جنوری میں کیے گئے اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

لندن کی عدالت کا کہنا تھا کہ اگر 50 سالہ آسٹریلوی شہری کو امریکی نظام انصاف کے حوالے کیا گیا تو انہیں خودکشی کا خطرہ ہوگا۔

اسانج کو 2010 میں وکی لیکس کی طرف سے افغانستان اور عراق میں امریکی جنگوں سے متعلق خفیہ فوجی دستاویزات کی اشاعت سے متعلق مقدمے کا سامنا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اکتوبر میں دو روزہ سماعت کے دوران امریکی وکلا نے دلیل دی کہ اصل جج نے اسانج کی ذہنی حالت کے بارے میں دیگر ماہرین کی رائے کو اہمیت نہیں دی۔

انہوں نے عدالت کو یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ اسانج کو فیڈرل سپر میکس جیل میں تنہائی کی سزا میں نہیں رکھا جائے گا اور ان کے ساتھ مناسب سلوک روا رکھا جائے گا۔

اپیل کی سماعت کرنے والے لندن ہائی کورٹ کے دو ججز نے امریکہ کی اس اس یقین دہانی کو تسلیم کر لیا کہ اسانج کو کسی بھی مقدمے سے پہلے یا سزا سنانے کے بعد بھی سخت ترین اقدامات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا: ’یہ نتیجہ امریکہ کے حق میں اس اپیل کا تعین کرنے کے لیے کافی ہے۔‘

اب یہ کیس دوبارہ زیریں عدالت میں زیر غور آئے گا۔

لیکن اسانج کی ساتھی سٹیلا مورس نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف جلد از جلد اپیل کریں گی۔

طویل عرصے سے چل رہے اس مقدمے کی آزادی اظہار رائے کے حوالے سے اہمیت ہے۔ اسانج کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وکی لیکس کے پاس بھی وہی حقوق ہیں جو دیگر میڈیا کو مفاد عامہ میں خفیہ مواد شائع کرنے کے لیے حاصل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسانج کے حامی جمعے کو عدالت کے باہر جمع ہوئے جو پلے کارڈز لہراتے ہوئے جنوب مشرقی لندن کی ایک ہائی سکیورٹی جیل سے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

امریکی حکومت نے اسانج پر وکی لیکس کی جانب سے افغانستان اور عراق کے تنازعات سے متعلق پانچ لاکھ خفیہ دستاویزات کے اجرا پر 18 الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی ہے۔

اگر حوالگی مقدمہ چلایا اور انہیں مجرم قرار دیا گیا تو انہیں 175 سال تک قید ہو سکتی ہے تاہم درست سزا کا اندازہ لگانا مشکل ہے اور یہ کم بھی ہو سکتی ہے۔

اسانج ایک اور مقدمے میں ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی پر ماضی میں سزا کاٹنے کے باوجود 2019 سے حراست میں ہیں۔

انہوں نے لندن میں واقع ایکواڈور کے سفارت خانے میں سات سال گزارے تاکہ جنسی زیادتی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے انہیں سویڈن کے حوالے کیے جانے بچا جا سکے۔ بعد ازاں یہ الزامات واپس لے لیے گئے تھے۔

ایکواڈور کے سفارت خانے میں قیام کے دوران ان کے موریس سے دو بچے پیدا ہوئے۔ اسانج کی ساتھی ان کی قانونی ٹیم کی رکن بھی ہیں۔

برطانوی جیل حکام نے گذشتہ ماہ اس جوڑے کو جنوب مشرقی لندن کی بیلمارش ہائی سکیورٹی جیل میں شادی کی اجازت دی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا