برطانیہ کی پابندی کا سامنا کرنے والے فرقان بنگلزئی کون ہیں؟

کوئٹہ کے فرقان بنگلزئی سیہون دھماکہ کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا ملنے کے بعد کراچی کی ایک جیل میں ہیں۔

فرقان بنگلزئی پر سیہون دھماکے کے مقدمے کے علاوہ کراچی کے گڈاپ اور ملیر کے متعدد تھانوں میں بھی مقدمات دائر ہیں  (فوٹو  سندھ پولیس)

برطانوی حکومت کی جانب سے چند روز قبل پابندی کی زد میں آنے والے کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے رکن فرقان عرف فاروق بنگلزئی اس وقت کراچی کی ایک جیل میں قید ہیں۔

 انڈپینڈنٹ اردو کو سندھ پولیس سے ملنے والے سرکاری ریکارڈ کے مطابق کوئٹہ کے رہائشی فرقان بنگلزئی کو سیہون دھماکہ کیس میں انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا ملنے کے بعد کراچی کی ایک جیل میں قید رکھا گیا ہے۔ 

واضح رہے کہ 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر برطانیہ کے فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیویلپمنٹ آفس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر میانمار کی فوج کے چار شعبوں پر ہتھیاروں، دیگر آلات اور فنڈنگ تک رسائی محدود کرنے کی پابندیاں عائد کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی کے رکن فرقان بنگلزئی پر بھی پابندی عائد کی گئی۔

حکومت برطانیہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ فرقان بنگلزئی 2017 میں سندھ میں بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر بم دھماکے میں ملوث تھے، جس کے نتیجے میں 70 افراد جان سے گئے تھے۔

اس پابندی پر اپنے ردعمل میں برطانوی پارلیمنٹ میں آل پارٹیز گروپ آن پاکستان کی شریک چیئرپرسن یاسمین قریشی نے برطانوی وزیر مملکت برائے ایشیا امینڈا ملنگ کے نام خط لکھ کر میانمار کی فوج کے ساتھ پاکستان کا ذکر کرکے ’گمراہ کن تاثر‘ پیدا کرنے کو ’مایوس کن‘ قرار دیتے ہوئے حقیقی صورتحال واضح کرنے پر زور دیا ہے۔

پاکستان کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کی ایک خبر کے مطابق یاسمین قریشی نے اپنے خط میں لکھا: ’میانمار پر عائد کی جانے والی پابندیوں اور پاکستان میں ایک عسکریت پسند گروہ کے ایک رکن کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیوں کو ایک جیسا قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا: ’ایک شخص کے خلاف عائد کی گئی پابندی کو پاکستان کے خلاف عائد کی جانے والی پابندیاں قرار دینے کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی گئی۔‘

خط میں یاسمین قریشی نے درخواست کی کہ ’یہ وضاحت کی جائے کہ برطانیہ کی طرف سے یہ پابندیاں پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ ایک عسکریت پسند گروپ کے رکن فرقان بنگلزئی کے خلاف عائد کی گئی ہیں۔‘

فرقان بنگلزئی اور ان کے ساتھی علی جاکھرانی عرف مرشد اور دیگر کو سندھ پولیس نے فروری 2017 میں سندھ کے صوفی بزرگ سید عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر کے مزار پر خود کش حملے کے نتیجے میں 70 سے زائد افراد کی ہلاکت کے واقعے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

پولیس کے مطابق اس دھماکے کی منصوبہ بندی بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں کی گئی۔

سندھ پولیس کے شعبہ انسداد دہشت گردی نے علی جاکھرانی عرف مرشد کو نومبر 2017 میں گرفتار کیا تھا جبکہ فرقان بنگلزئی کو ان کے ایک اور ساتھی علی اکبر عرف حاجی کے ساتھ فروری 2019 میں گرفتار کیا تھا۔ 

ان کی گرفتاری کے بعد 20 فروری 2019 کو اس وقت کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) کراچی ایسٹ اور سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر عرفان بہادر نے میڈیا کو دی گئی بریفنگ میں دونوں ملزمان کا تعلق کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی سے بتایا تھا۔ لشکر جھنگوی ماضی میں داعش کی خراسان شاخ میں شامل ہوگئی تھی۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی 2020 میں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نادر علی جاکھرانی عرف مرشد اور فرقان بنگلزئی کو لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر حملہ کرنے والے خودکش بمبار ابرار بروہی کی سہولت کاری کا جرم ثابت ہونے پر 70 بار سزائے موت دینے کے ساتھ ہر ایک کو 70 لاکھ روپے جرمانے کا حکم سنایا تھا۔ 

عدالت میں کیس کی کارروائی کے دوران پولیس نے اپنی تفتیشی رپورٹ میں عدالت کو بتایا کہ گرفتار عسکریت پسندوں فرقان بنگلزئی اور علی اکبر نے تفتیش کے دوران بتایا کہ انہوں نے شدت پسندی کی تربیت افغانستان سے حاصل کی اور داعش میں شمولیت کے بعد ہلاک ہونے والے شدت پسند رہنما مفتی ہدایت اللہ کے حکم پر سیہون دھماکے میں سہولت کاری کے ساتھ کوئٹہ میں ہزارہ اور مسیحی برادری اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ 

فرقان بنگلزئی پر سیہون دھماکے کے مقدمے کے علاوہ کراچی کے گڈاپ اور ملیر کے متعدد تھانوں میں بھی مقدمات دائر ہیں۔

شدت پسند تنظیم سپاہ صحابہ سے الگ ہوکر بننے والی لشکر جھنگوی کا نام 1990 کی دہائی کے وسط میں اس وقت سنا گیا جب پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر پُرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

پاکستانی حکومت نے لشکر جھنگوی پر 2001 میں پابندی لگا کر اسے کالعدم قرار دیا تھا۔ ماضی میں پاکستان میں شدت پسندی کے بڑے حملوں کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان