پاکستان کے وزیراعظم اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے خیبر پختونخوا میں گذشتہ دنوں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجہ پہلے مرحلے میں ’غلط پالیسیوں‘ کو قرار دیا ہے۔
عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے لیے غلط امیدواروں کے چناؤ کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ دوسرے مرحلے میں بلدیاتی الیکشن کی منصوبہ بندی و حکمت عملی کی جانچ پڑتال خود کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو سراہتے ہوئے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے بعض اراکین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت اندرونی طور پر کئی منفی عوامل کا شکار ہے تاہم جس سے وزیر اعظم کو لاعلم رکھتے ہوئے اعلیٰ قیادت انہیں صرف ’سب اوکے‘ کی رپورٹ سے مطمئن کرتے رہے۔
واضح رہے کہ 19 دسمبر کو خیبر پختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات صرف پہلے مرحلے کے انتخابات تھے جس میں تین قبائلی اضلاع سمیت کل 17 اضلاع شامل رہے۔
PTI made mistakes in 1st phase of KP LG elections & paid the price. Wrong candidate selection was a major cause. From now on I will personally be overseeing PTI's LG election strategy in 2nd phase of KP LG elections & LG elections across Pak. InshaAllah PTI will come out stronger
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 21, 2021
اگرچہ غیر حتمی اور غیرسرکاری نتائج کے مطابق، پشاور میں سٹی میئر کے عہدے پر جمعیت علمائے اسلام کا امیدوار کامیاب ہوا ہے لیکن الیکشن کمیشن کا کہنا ہ کہ جن چھ پولنگ سٹیشنوں پر بدنظمی کی وجہ سے الیکشن ملتوی کر دیا گیا تھا وہاں دوبارہ پولنگ کرائی جائے گی۔
الیکشن کمیشن پاکستان کے ترجمان سہیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دوبارہ پولنگ کے لیے تاحال کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے تاہم یہ طے ہے کہ سٹی مئیر کے لیےچھ پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نئے نتائج کے بعد ہی کہا جاسکے گا کہ میئر کے عہدے پر کامیابی کس کو حاصل ہوئی ہے۔
جمعیت العلمائے اسلام کے ٹکٹ پر پشاور سے سینیٹر غلام علی کے فرزند زبیر علی کی سٹی میئر کے عہدے پر کامیابی کو جہاں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے لیے ایک ’بدترین شکست‘ سمجھا جارہا ہے وہیں سیاسی افق پر ایک مذہبی جماعت کا ابھرنا بعض حلقوں میں باعث تشویش بھی سمجھا جارہا ہے۔
’عوامی سطح پر مذہبی انتہا پسندوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے‘
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام ایف کی کامیابی پر کہا ہے کہ ’متشدد پالیسیوں کے حامی لوگوں کو اقتدار ملنا حوصلہ کن بات نہیں ہے۔‘
فواد چوہدری کا منگل کو کہنا تھا کہ ’خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کے آنے سے مایوسی ہوئی۔ اس طرح کی جماعتیں اس بات کی علامت ہیں کہ پاکستان میں سب ٹھیک نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسے لوگوں کو اقتدار ملتا ہے جو خواتین کے حقوق کے خلاف ہیں، آزادیوں کے خلاف ہیں اور جو مذہبی طور پر متشدد پالیسیوں کے حامی ہیں، ایسے لوگوں کو اقتدار ملنا حوصلہ کن بات نہیں ہے۔ مولانا فصل الرحمان کا اقتدار میں آنا بدقسمتی ہے۔‘
اب تک موصول ہونے والے غیرحتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق، جے یو آئی کو نہ صرف پشاور بلکہ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی نمایاں کامیابی حاصل رہی ہے۔
اس حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر اعجاز خٹک نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں مذہبی جماعت کی کامیابی افغانستان میں طالبان کی حکومت اور پاکستان کی خراب پالیسیوں کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو پاکستان میں جتنا سراہا گیا، اس سے عوامی سطح پر مذہبی جماعتوں کے لیے پسندیدگی پیدا ہوئی اور ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔‘
’یہ ٹھیک ہے کہ جمعیت کے پاس مدرسوں کا ایک واضح ووٹ بینک ہے، لیکن صرف مدرسوں کا ووٹ پڑنے سے وہ نہیں جیت سکتے تھے۔ انہیں عام عوام نے بھی ووٹ دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پروفیسر اعجاز نے مزید کہا کہ ’جن سیاسی جماعتوں کو جے یو آئی کے جیتنے پر دھچکا لگا ہے، انہیں خود اپنی ’کیلکولیشنز‘ نے دھوکہ دیا ہے، کیونکہ وہ اپنا مدمقابل کسی اور کو سمجھتے رہے۔‘
’نوجوانوں کا ٹرن آؤٹ کم رہا‘
خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی افتخار فردوس نے پی ٹی آئی کی بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں ناکامی کو تین عوامل میں تقسیم کرتے ہوئے بتایا کہ اس شکست کے پیچھے سیاسی، معاشرتی عوامل دیکھنے کے ساتھ ساتھ ای سی پی کا وہ ڈیٹا دیکھنا بھی اہم ہے جس کے مطابق، 2018 کے الیکشن میں 63 فیصد ووٹ بینک 18 سے 32 سال کی عمر کے افرادکا تھا، اور جن میں اکثریت نے پہلی مرتبہ ووٹ ڈالا تھا۔
سیاسی نقطہ نظر سے بات کرتے ہوئے افتخار فردوس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جو لوگ جے یو آئی کی کامیابی اور پی ٹی آئی کی ناکامی کو ایک حیران کن خبر سمجھتے ہیں، وہ دراصل حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آگاہی نہیں رکھتے۔‘
’پہلی بات تو یہ کہ پی ٹی آئی نے پاپولر امیدواروں کے برعکس غیر معروف و ناپسندیدہ امیدواروں کو ٹکٹ دیے۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے ویلج و نیبر ہڈ میں پارٹی کو تقسیم سے بچانے کے لیے آزاد امیدوار کھڑے کیے۔ دوسری جانب، جے یو آئی ف نےشاطرانہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ان کے آزاد امیدواروں کو خاص کر جن کا ووٹ بینک زیادہ تھا،کو ساتھ ملاکر سٹی میئر کے عہدے کے لیے تعاون مانگتے ہوئے ان کے ساتھ ان-آفیشل سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی۔‘
افتخار فردوس نے بتایا کہ ’اگر معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے کارکنان اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز سے ناراض ہیں۔ دوسری جانب، عوام بھی مہنگائی کی وجہ سے ان کی کارکردگی سے ناخوش ہیں، لہذا صرف وہ لوگ ووٹ ڈالنے آئے جو مہنگائی سے براہ راست متاثر ہو رہے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ٹرن آؤٹ 50 فیصد سے زیادہ ہوتا تو شاید پی ٹی آئی جیت جاتی۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر چھ پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ بھی ہوجائے تو شاید پی ٹی آئی نہ جیت سکے۔
’اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا؟ ایک مذہبی جماعت جو پی ٹی آئی کے بالکل برعکس ہے، سامنے آئی ہے، اور جو صوبائی حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرے گی۔ دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوں گے اور سیاست ترقیاتی کاموں کے آڑے آتی رہےگی۔‘
’اگر عوام حکمران جماعت سے تنگ تھی، تو کتاب ہی کو ووٹ کیوں دیا؟‘
خیبر پختونخوا سے سیاست اور الیکشن کے امور کے تجزیہ نگار صحافی وقاص شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اس وجہ سے ووٹ نہیں ملا کہ عوام ان کی کارکردگی سے ناخوش تھے، تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ وہ عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن کو ووٹ دے دیتے، لیکن انہوں نے جے یو آئی کو ہی کیوں منتخب کیا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
’لہذا میرا خیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا حکومت کے حوالے سے سخت نقطہ نظر اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے برعکس اپوزیشن کا کردار بہت اچھے طریقے سے نبھایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی جماعت اور کارکنان کو بھی فعال رکھا، اور مسلسل خبروں میں رہے۔‘