پشاور: توہینِ مذہب کے ملزم کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی

ملزم کو گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’پھانسی کی سزا اس وقت تک نہ دی جائے جب تک پشاور ہائی کورٹ اس فیصلے کی توثیق نہیں کر دیتی۔‘(اے ایف پی فائل)

خیبر پختونخوا کے دارلحکومت پشاور کی ایک مقامی عدالت نے اہانت مذہب ایک ملزم کو سزائے موت اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنا دی۔ جبکہ اسی کیس میں لوگوں کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے پر ملزم کو مزید دو سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

ملزم کو گذشتہ سال ستمبر کے مہینے میں اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں بظاہر انہوں نے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔

ملزم کو تھانہ انقلاب کے پولیس اہلکاروں نے پشاور کے علاقے غریب آباد سے گرفتار کیا تھا۔ ان پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 295-سی ( توہین رسالت) اور دفعہ 298 (مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچانے ) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پشاور میں جمعرات (23 دسمبر) کو ایڈینشل سیشن جج محمد طاہر اورنگزیب کی عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ ’دفعہ 295-سی کے تحت ملزم کو سزائے موت کی سزا سنائی جاتی ہے اور سزائے موت سمیت ان کو ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔‘

 عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’اگر مجرم نے ایک لاکھ روپے جرمانہ وقت پر ادا نہیں کیا تو ان کی قید میں چھ ماہ کی توسیع کیا جائے۔‘

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’پھانسی کی سزا اس وقت تک نہ دی جائے جب تک پشاور ہائی کورٹ اس فیصلے کی توثیق نہیں کر دیتی۔ ‘

عدالتی فیصلے میں پشاور سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پھانسی کے لیے ضروری اقدامات اور ریفرنس تیار کریں اور اس کو پشاور ہائی کورٹ بھیجا جائے۔ تاکہ پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے پھانسی دینے کی توثیق کی جا سکے۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملزم پر دفعہ 298 کے تحت لگائے الزامات بھی ثابت ہوئے ہیں جس میں ان کو دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی جاتی ہے۔

ملزم پر درج مقدمے میں کیا لکھا گیا ہے؟

ملزم کو پچھلے سال چھ ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا اور پشاور کے تھانہ انقلاب میں ان پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

 مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ ملزم کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ نبی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقدمے کے مطابق پولیس نے ان کے موبائل نمبر سے ان کی لوکیشن ٹریس کی تھی جس سے معلوم ہوا تھا کہ ملزم کا تعلق ضلع چارسدہ سے ہے اور وہ پشاور میں اپنے بھانجے کے گھر میں موجود ہیں۔

مقدمے میں لکھا گیا ہے کہ پولیس نے نفری بھیج کر ملزم کو بھانجے کے گھر سے گرفتار کیا اور گرفتاری کے وقت ان کے قبضے سے پستول بھی برآمد کیا۔

تھانہ انقلاب کے ایس ایچ او تحسین اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم نے ملزم کو غریب آباد کے علاقے سے گرفتار کیا تھا اور اس وقت بھی تفتیش کے دوران ملزم نے اقبال جرم کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ عدالت کی جانب سے ان پر جرم ثابت ہونے پر ان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

ملزم کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم بھی چلائی گئی تھی اور عوام کی جانب سے ان کو سزا دینے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

ملزم کی کچھ ویڈیوز یوٹیوب پر بھی موجود ہے جس میں وہ خدا کے ساتھ بات کرنے اور نبی ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین میں سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ ماضی میں بھی توہین رسالت کے الزام میں مختلف ملزمان کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

امریکہ کے کمیشن برائے انٹرنیشنل ریلیجبز کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 80 کے قریب افراد توہین مذہب کے الزام میں گرفتار ہیں۔ ان گرفتار افراد میں نصف کے قریب سزائے موت یا عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

اسی رپورٹ کے مطابق بعض واقعات میں ملزمان عدالت پہنچنے سے پہلے مشتعل ہجوم کی جانب سے ہلاک کر دیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق سال 1990 سے سال 2020 تک 62 افراد توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔

سینٹر فار سوشل جسٹس نامی تنظیم مذہبی آزادیوں کے حوالے سے کام کرتی ہے۔

اس تنظیم کی فروری 2021 میں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 1987 سے سال 2020 تک 1855 افراد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے۔

جن میں سب سے زیادہ 200 مقدمات سال 2020 میں رپورٹ ہوئے۔ ان مقدمات میں نامزد ملزمان میں سے 70 فیصد افراد مسلمان تھے۔

رپورٹ کے مطابق ملزمان میں 20 فیصد افراد کا تعلق احمدی برادری، تین فیصد سے زائد سکھ مت اور ایک فیصد ہندو مت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ پانچ فیصد ملزمان کی مذہبی وابستگی معلوم نہیں ہو سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان