پریانتھا کمارا قتل: سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور

قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ بہیمانہ سفاکیت کا یہ افسوس ناک واقعہ پاکستانی معاشرے میں موجود انتہا پسند عناصر کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام کی پرامن تصویر کو بھی داغدار کیا ہے۔

چار دسمبر 2021 کی اس تصویر میں پاکستانی صنعت کار سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی تصویر کے سامنے پھول رکھ رہے ہیں(اے ایف پی)

سینیٹ کے اجلاس میں سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا پر ہجوم کے حملے کی مذمت سے متعلق قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

سینیٹ کے جمعے کے روز اجلاس میں قائد ایوان شہزاد وسیم کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ انتہا پسندی اپنی تمام شکلوں میں قابل مذمت ہے۔

قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ ’بہیمانہ سفاکیت کا یہ افسوس ناک واقعہ پاکستانی معاشرے میں موجود انتہا پسند عناصر کے ذہن کی عکاسی کرتا ہے، جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام کی پرامن تصویر کو بھی داغدار کیا ہے۔‘

قرار داد میں کہا گیا کہ ’یہ ظلم و بربریت اسلام کی روح، اصولوں، تعلیمات اور احکامات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں، اخلاقی اور انسانی اقدار، پاکستان کے آئین و قوانین اور ہمارے معاشرے کے رسم و رواج کی سراسر خلاف ورزی ہے۔‘

ایوان نے قرارداد میں پریانتھا کمارا کے اہل خانہ کے ساتھ اپنی گہری ہمدردی کا اظہار بھی کیا اور اس وحشیانہ اور شرمناک واقعہ پر قومی سطح پر محسوس کیے گئے غم اور دکھ کی کا ذکر بھی کیا۔

قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ’نہ صرف پریانتھا کمارا کے قتل پر اکسانے اور قتل کرنے میں ملوث مجرموں کو بلکہ ماضی میں اس طرح کے پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کو بھی فوری سزا دی جائے۔‘

اس سے قبل ایوان کی کارروائی کے دوران سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے تین دسمبر کو پریانتھا کمارا کی ہجوم کے ہاتھوں ہولناک ہلاکت کا تذکرہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘سیالکوٹ کے واقعے نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے، کیونکہ ہجوم نے جس بے دردی سے سری لنکن شہری کو قتل کیا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا: ’وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان میں ہجومی تشدد اور تشدد کے رجحانات میں اضافہ ہوا ہے، جنہیں بنیادی طور پر جنرل ضیاالحق کے دور میں پروان چڑھایا گیا اور بعد میں انہیں سیاسی مقاصد اور فائدوں کے لیے بڑھاوا دیا گیا اور استعمال بھی کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ وہ سماجی بے حسی ہے جس کے خلاف پوری قوم کو لڑنا ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے یاد کیا کہ اسی شہر سیالکوٹ میں سال 2010 میں دو بھائیوں کو بھی اسی طرح ایک ہجوم نے بےرحمی سے ہلاک کر دیا تھا۔

سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پارلیمنٹ میں عوام کو انصاف فراہمی یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔  

پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ اکھاڑنے کا مسئلہ

اس سے قبل سینیٹ کے سابق چیئرمین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی نے چند روز قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی علاقے میں افغان طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر باڑ اکھاڑنے کے واقعے کی طرف توجہ دلائی۔

ایوان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد کی جانب سے افغان طالبان کی حمایت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’جب انہوں [افغان طالبان] نے سرحد کو بھی تسلیم نہیں کیا تو پاکستان کو ان کو مدد فراہم کرنے کی جلدی کیوں ہے؟‘

انہوں نے کہا کہ ’وزیر خارجہ کو اس حالیہ واقعے سے متعلق سینیٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان نے کابل کے احتجاج کے باوجود دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان 2,600 کلومیٹر سے زیادہ کی سرحد (ڈیورنڈ لائن) کے زیادہ حصے پر باڑ لگا دی ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان ہمیشہ سے برطانوی دور میں وجود میں آنے والی ڈیورنڈ لائن کی مخالفت کرتا رہا ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغان وزارت دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے تصدیق کی ہے کہ اتوار کو طالبان فورسز نے پاکستانی فوج کو مشرقی صوبے ننگرہار کے ساتھ ایک غیر قانونی سرحدی باڑ لگانے سے روکا تھا۔

افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ اشرف غنی انتظامیہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی خرابی کی بنیادی وجہ اسلام آباد کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگانے کو قرار دیا جاتا ہے۔  

سینیٹر رضا ربانی نے کہا: ’وہ (افغان طالبان) سرحد کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تو ہم کیوں آگے بڑھ رہے ہیں؟‘

پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے ان اطلاعات پر بھی خطرے کا اظہار کیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں دوبارہ منظم ہو رہی ہے، جس سے ممکنہ طور پر پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا مل سکتی ہے۔

انہوں نے مزید سوال اٹھایا: ’ریاست کن شرائط پر کالعدم گروپ کے ساتھ جنگ بندی کی بات کر رہی ہے؟‘

انہوں نے کہا: ’ریاست پاکستان سے مراد پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی ہے نہ کہ صرف پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ۔‘

سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر پاکستانی عوام کو اعتماد میں لینا ریاست کی ذمہ داری ہے، اور اس معاہدے کو عوام کے سامنے لایا جانا چاہیے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ریاست کو لوگوں کو بتانا ہو گا کہ معاہدے میں جنگ بندی کے لیے کیا شرائط طے ہوئی ہیں۔‘

سیالکوٹ پریانتھا کمارا قتل کیس میں 64 افراد رہا

ترجمان سیالکوٹ پولیس کے مطابق سری لنکن شہری کے قتل میں ملوث زیر حراست 149 ملزمان میں سے 64 کو رہا کر دیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ’اس وقت 85 مرکزی ملزمان سے تفتیش کی جارہی ہے، جب کہ تمام ملزمان کا فرانزک ٹیسٹ مکمل ہو چکا ہے۔‘

ملزمان گوجرانوالہ انسداد دہشت گردی عدالت سے جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ 28 دسمبر کو 18 ملزمان کو دوبارہ گوجرانوالہ انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا، جب کہ دیگر 67 جسمانی ریمانڈ پر ملزمان کو تین جنوری کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان