استاد یا ماں: بچوں کی شخصیت پر کون زیادہ اثر انداز ہوسکتا ہے؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ بچہ سب سے پہلے اگر کسی شخصیت کو تسلیم کرتا ہے یا اس کا اثر قبول کرتا ہے تو وہ اسکی ماں ہی ہے۔ مگرماں کا حلقہ عمل بہت محدود ہوتا ہے۔

سکول کے ماحول کو قابل قبول یا نا قابل برداشت بنانا استاد کے ہاتھ میں ہے۔ جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ایک استاد بچے کی ذہنی صحت اور اسکی شخصی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے یا کر سکتا ہے (تصویر: پیکسلز)

’مجھے ایک درجن تندرست بچے دو، اور مجھے اختیار دو کہ میں ان کی اپنی خاص دنیا میں ان کی پرورش اور تربیت کر سکوں، تو میں ان بچوں کو کسی بھی شعبے میں ماہر بنا سکتا ہوں پھر چاہے وہ ڈاکٹر ہو، وکیل ہو، فنکار ہو، سوداگر ہو یا بھکاری ہو۔۔۔۔۔۔۔‘ 

یہ الفاظ تھے ایک صدی قبل کے مشہور امریکی ماہر نفسیات جان واٹسن کے جنہیں نظریہ کردار کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔

واٹسن کے یہ الفاظ بہت حد تک ہمارے اس موقف کی حمایت کرتے ہیں کہ بچوں کو سکول میں ایک خوشگوار اور مددگار ماحول فراہم کر کے انہیں اس قابل بنایا جا سکتا ہے کہ وہ زندگی کے جس شعبے میں بھی چاہیں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔ اور اس کارخیر میں ایک بچے کا سب سے بڑا مددگار اس کا استاد ہی ہو سکتا ہے۔

بہت سے لوگ اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں کہ بچے کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور جتنی اچھی طرح ماں کی تربیت بچے کی شخصیت کی بنیاد اٹھاتی ہے اتنی اچھی طرح استاد شاید نہیں کر پاتا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ بچہ سب سے پہلے اگر کسی شخصیت کو تسلیم کرتا ہے یا اس کا اثر قبول کرتا ہے تو وہ اس کی ماں ہی ہے۔ مگر ماں کا حلقہ عمل بہت محدود ہوتا ہے۔ وہ گھر کی چار دیواری سے لے کر محلے تک بچے کو سمجھا سکتی ہے، اس کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ اس سے آگے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے۔ اور یہاں سے استاد کا کردار صحیح معنوں میں شروع ہوتا ہے، جب بچہ گھر اور محلے سے نکل کر اس سے آگے کی دنیا کو کھوجنے کی کوشش کرتا ہے۔

بچے کی طبعی عمر اور ذہنی عمر

بچے کو سکول میں اس کی طبعی عمر کے مطابق داخل کروایا جاتا ہے۔ یہ عمر اس خاص جماعت میں موجود طالبعلموں کی تقریباً ایک ہوتی ہے۔ اسی عمر کے لحاظ سے بچہ سکول کے تعلیمی مراحل طے کرتا ہے۔

جیسے جیسے اس کی طبعی عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے وہ سکول کے تعلیمی مراحل میں آگے بڑھتا جاتا ہے۔ طبعی عمر کے ساتھ ساتھ بچے کی ذہنی عمر بھی اس کی شخصی نشونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس طرح طبعی عمر بچے کی پیدائش سے لے کر اس وقت تک کے سالوں کو ظاہر کرتی ہے اسی طرح ذہنی عمر بچے کی ذہانت اور فطانت کی بتدریج بڑھوتری کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ دونوں بظاہر بلکل مختلف تصوورات ہیں مگر درحقیقت دونوں ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان دونوں کا بچے کی شخصیت پر مختلف اثر پڑتا ہے۔ طبعی عمر بچے کی خوراک یا اسکی صحت سے متعلق ہوتی ہے جب کہ ذہنی عمر بچے کی ذہنی صحت سے متعلق ہوتی ہے۔

اگر ہم معاشرے میں صحتمند  افراد کا اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں بچوں کی جسمانی صحت پر زور دینا چاہے، اور اگر ہم معاشرے میں ذہنی طور پر مظبوط اور صحتمند افراد کا اضافہ چاہتے ہیں تو ہمیں بچوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ انکی ذہنی صحت کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔

استاد کا کلیدی کردار

جسمانی صحت کی ذمہ داری اگر گھر کی ہے تو ذہنی صحت کی ذمہ داری سکول کی اور سکول میں خاص طور پر استاد کی ہے۔ سکول میں داخل ہونے کے بعد بچہ کیا سیکھے گا اور کیسے سیکھے گا ان سب کا فیصلہ استاد کرتا ہے۔

استاد اگر بچے کو ایک مددگار اور پرسکون ماحول مہیا کرنے میں کامیاب ہو جائےتو بچہ بغیر کسی ذہنی دباؤ کے اپنی تمام ذہنی صلاحتوں کو بروئےکار لاتے ہوئے اپنی ذہنی استعداد کو بڑھا سکتا ہے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ استاد کا بچے کے ساتھ رویہ بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

استاد کا رویہ اگر ایک ہمدرد ، ایک گائیڈ اور ایک مددگار کا ہوگا تو بچہ سیکھنے کے عمل کو خوشی خوشی گزارے گا اور اگر استاد کا رویہ ایک آمر کا ہے جسکی کہی ہوئی بات حرف آخر ہو اور وہ بچوں کو کچھ نیا سیکھنے کا، یا کوئی سوال پوچھنے کا موقع نہ دے تو بچے کی ذہنی صلاحتیں بڑھنے کی بجائے منجمند ہو جائینگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسا بچہ طبعی لحاظ سے تو اپنی عمر میں آگے بڑھتا جائے گا مگر اسکی ذہنی عمر نہیں بڑھ پائے گی۔  جس کا براہِ راست اثر اسکی ذہنی صحت پر پڑے گا۔ اور ایسے اساتذہ اور ایسا ماحول صرف ڈرے سہمے اور رٹو طوطے بچے، جو کچھ نیا سیکھنا یا سمجھنا نہیں چاہتے، ہی پیدا کریں گے۔

ایک اچھا استاد وہ ہے جو بچوں کو یہ ضرور بتائے کہ کہاں دیکھنا ہے مگر یہ نہ بتائے کہ کیا دیکھنا ہے۔ یعنی بچے کو معلومات یا علم ضرور مہیا کرے مگر انہیں اس قابل بھی بنائے کہ وہ ان معلومات یا دیے گئے علم سے فائدہ خود اٹھائیں۔

استاد چاہے تو وہ بچے کے سیکھنے کے عمل کو خوشگوار بنا دے، چاہے تو بچے کے لیے اس عمل کو صرف ایک عمل ہی رہنے دے جسے پایا تکمیل تک پہنچانا اسکی مجبوری بن جائے۔

اس بات پر جتنا بھی زور دیا جائے اتنا کم ہو گا کہ ایک اچھے ماحول میں سیکھنے کا عمل بچوں کی ذہنی صحت پر اچھا اثر ڈالتا ہے، ان کی صلاحتوں کو اجاگر کرتا ہے، ان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنی پوشیدہ صلاحتوں کو بھی ڈھونڈ سکیں اور انہیں بہتر سے بہتر بنا سکیں۔

جب کہ سختی اور تنگی والا ماحول بچوں کی ذہنی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحتوں پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ سکول کے ماحول کو قابل قبول یا نا قابل برداشت بنانا استاد کے ہاتھ میں ہے۔ جس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ایک استاد بچے کی ذہنی صحت اور اسکی شخصی نشونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے یا کر سکتا ہے۔

ہم من حیث القوم استاد کو جتنا اختیار دیں گے کہ وہ بچے کی ذہنی نشونما  پر اثر انداز ہو سکے اور اس کو ایک بہترین ماحول سیکھنے کے لیے مہیا کر سکے اتنا ہی ہماری آنے والی نسل جسمانی طور پر اور ذہنی طور پر صحت مند ہو گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین