کیا واقعی ’میڈ اِن چائنا‘ چیزیں گھٹیا ہوتی ہیں؟ 

چینی فیکٹریاں ہر معیار کی مصنوعات بناتی ہیں۔ چین سے باہر زیادہ تر ہلکے معیار کی مصنوعات جاتی ہیں کیونکہ ان مصنوعات کے خریداروں کا مطالبہ یہی ہوتا ہے۔

دو ستمبر 2021 کی اس تصویر میں ایک چینی خاتون کو بیجنگ کے ایک شاپنگ مال میں کپڑوں کی خریداری کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

چین کو دنیا کی فیکٹری کہا جاتا ہے۔ یہاں دنیا میں استعمال ہونے والی ہر چیز بنتی ہے۔ اب چاہے وہ گھر میں سلائی کڑھائی کے کام میں استعمال ہونے والی سوئی ہو، دفاتر میں استعمال ہونے والے کمپیوٹر ہوں یا جنگی مشقوں میں استعمال ہونے والے جنگی طیارے ہوں۔ چین سب کچھ بناتا ہے۔

’میڈ اِن چائنا‘ دنیا میں سب سے زیادہ پہچانا جانے والا لیبل ہے، تاہم اس لیبل کے ساتھ بہت سی منفی باتیں بھی جڑی ہوئی ہیں۔

عام خیال ہے کہ جس چیز پر ’میڈ اِن چائنا‘ لکھا ہوگا وہ سستی تو ہوگی لیکن بے کار ہوگی۔ ناقص اور گھٹیا۔ چلنے پر آئی تو ساری زندگی ساتھ نبھائے گی ورنہ دکان سے نکلتے ہی ساتھ چھوڑ جائے گی (چلے تو چاند تک، نہ چلے تو شام تک)۔

اکثر یہ خیال ٹھیک ہی ثابت ہوتا ہے۔

چینی مصنوعات کو انسانی صحت کے لیے بھی مضر تصور کیا جاتا ہے۔ بہت سی مصنوعات ماحول دوست بھی نہیں ہوتیں۔

کچھ سالوں سے ان کے ساتھ چین میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ٹھپہ بھی لگ چکا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے لوگ چینی مصنوعات کو اس وجہ سے بھی خریدنے سے گریز کرتے ہیں۔

لیکن کیا چین میں ملنے والی مصنوعات بھی اسی معیار کی ہوتی ہیں؟

نہیں۔ کم از کم میرا تجربہ یہی کہتا ہے۔ چین میں ملتا تو ظاہر ہے کہ ’میڈ اِن چائنا‘ ہی ہے لیکن اس کا معیار چین کے باہر ملنے والے ’میڈ اِن چائنا‘ سے کئی گنا بہتر ہوتا ہے۔

چین میں خریداری بھی آسان ہے۔ کچھ چاہیے ہو، فون اٹھائیں، ایپ کھولیں، متعلقہ شے ڈھونڈیں، رقم کی ادائیگی کریں اور بس۔ کچھ دیر میں وہ شے آپ کے گھر ڈیلیور ہو جائے گی۔

چینیوں کی ایمانداری کا حال کچھ ایسا ہے کہ لوگ مہنگے مہنگے لیپ ٹاپ، موبائل فون، حتیٰ کہ سونا تک پیشگی ادائیگی پر آن لائن خریدتے ہیں اور وہ مقررہ دن ان کے گھر پہنچ بھی جاتا ہے۔

دنیا کا ہر برانڈ چین میں دستیاب ہے۔ جو لگژری مصنوعات خریدنے کی طاقت رکھتے ہوں بڑے بڑے شاپنگ مالز میں بڑے بڑے بیگ اٹھائے پھر رہے ہوتے ہیں۔ جو اتنی مہنگی اشیا نہ خرید سکتے ہوں وہ علی بابا گروپ کی تاؤ باؤ نامی ایپ پر ان مصنوعات کی اچھی کوالٹی والی نقل سستے داموں خرید لیتے ہیں۔

لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ دو دہائی قبل چینی بھی میڈ اِن چائنا کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ ہماری طرح ان کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ وہ امپورٹڈ مصنوعات ہی خریدیں۔

مجھے جب یہ بات میری چینی دوست مُو نے بتائی تو میں بھی حیران ہی رہ گئی تھی۔ میں نے تو چینیوں کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ اپنی ثقافت سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اپنے ملک پر جان چھڑکتے ہیں۔ ہر چیز اپنی بنائی ہوئی استعمال کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن مُو نے بتایا کہ اس وقت لوگوں کی سوچ کافی مختلف تھی۔ جہاں ان کا بس چلتا تھا وہاں وہ دیگر ممالک سے درآمد شدہ اشیا  ہی خریدتے تھے۔ پھر چینی برانڈز نے اپنی مصنوعات کو بہتر اور معیاری بنانے پر توجہ دی۔ آج بہت سے چینی اپنے لوکل برانڈز کو فخر کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔

پھر چین سے باہر اشیا کا معیار اس قدر کم کیوں ہے؟

چینی فیکٹریاں ہر معیار کی مصنوعات بناتی ہیں۔ چین سے باہر زیادہ تر ہلکے معیار کی مصنوعات جاتی ہیں کیونکہ ان مصنوعات کے خریداروں کا مطالبہ یہی ہوتا ہے۔

معیاری مصنوعات کا مطلب زیادہ قیمت ہوتا ہے۔ کاروباری حضرات وہ قیمت دینے سے کتراتے ہیں۔ انہیں ان مصنوعات کو اپنے ملک تک پہنچانے کا کرایہ اور کسٹم ڈیوٹی بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔

اس کے بعد ان مصنوعات کی قیمت ان کاروباری حضرات کے گاہکوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو جاتی ہے۔ وہ اسی لیے چین سے خریدی جانے والی مصنوعات پر اپنا خرچ کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بہت سے کیسز میں زبان کا مسئلہ بھی آ جاتا ہے۔ چینی فیکٹریوں میں کام کرنے والے زیادہ تر لوگ بس چینی زبان جانتے ہیں۔ خریدار ان سے ٹھیک طرح سے بات چیت نہیں کر پاتے۔ اس کا اثر بھی مصنوعات کے معیار پر پڑتا ہے۔

چینی فیکٹریاں انہیں مکمل بات نہیں بتا پاتیں۔ بس ان کی دی گئی قیمت میں جو بن سکتا ہو بنا کر دے دیتی ہیں۔

ان مصنوعات کا سیفٹی اور کوالٹی چیک بھی نہیں ہوتا۔ بعد میں اگر کوئی شے خراب نکلے تو اس کا سارا قصور اس شے پر لگے لیبل کو دے دیا جاتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ چین سے باہر اچھے معیار کی چیزیں نہیں جاتیں۔ جاتی ہیں لیکن ان کی تعداد گھٹیا معیار والی اشیا سے کم ہوتی ہے۔

اور جو چیز اچھی ہو اس کے بارے میں ہم اتنی بات نہیں کرتے۔ جو چیز خراب ہو اسی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اسی لیے ہم جہاں میڈ اِن چائنا لکھا ہوا دیکھتے ہیں، فوراً اس چیز کے گھٹیا ہونے کا یقین کر لیتے ہیں۔

چین نے اس مسئلے کو دیر سے ہی سہی پر سمجھا ضرور ہے۔ پچھلے کچھ سالوں سے چینی کمپنیاں اپنی مصنوعات کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہیں۔ وہ انہیں درآمد کرنے سے پہلے انہیں کوالٹی اشورنس کے مختلف مراحل سے گزارتی ہیں۔ پھر انہیں باہر بھیجتی ہیں۔

ان کی یہ کوششیں میڈ اِن چائنا کے ساتھ لگے ہوئے برے ٹیگ کو کب اتار پائیں گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ