پانچ ریاستوں میں الیکشن مودی کی مقبولیت کا امتحان

اگلے چند ہفتوں میں بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات 2024 میں عام انتخابات سے قبل نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے اہم ہوں گے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے پانچ جنوری، 2022 کو فیروز پور میں ریاستی اسمبلی کے انتخابات سے قبل ایک ریلی کے دوران بی جے پی کے رہنما اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر کے ساتھ بی جے پی پارٹی کے جھنڈے پکڑے ہوئے  (اے ایف پی)

اگلے چند ہفتوں میں بھارت کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات پر گہری نظر رکھی جائے گی، یہ انتخابات 2024 میں ملک کے عام انتخابات سے قبل نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے اہم ہوں گے۔

یہ رائے شماری اس بات کا بھی امتحان لے گی کہ کیا اپوزیشن جماعتیں، جن کی تعداد نریندر مودی کے عروج سے چند انتخابات میں تیزی سے کم ہوئی ہے، 2024 سے پہلے انہیں چیلنج کرنے کے لیے ایک متحدہ محاذ تشکیل دے سکتی ہیں۔

سب سے زیادہ آبادی والی اترپردیش (یوپی)، اتراکھنڈ، گوا، منی پور اور احتجاج سے نمٹتے پنجاب سمیت پانچ ریاستوں میں آئندہ انتخابات میں 180 ملین سے زائد یعنی برطانیہ کی آبادی سے دوگنا زیادہ رائے دہندگان  ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔

ان میں سے چار ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار ہے جب کہ پنجاب میں انڈین نیشنل کانگریس برسراقتدار ہے، جس نے 2014 میں اقتدار سے نکلنے سے پہلے اور بھارت کی آزادی کے بعد سے کئی دہائیوں تک ملک میں وقفے وقفے سے حکومت کی ہے۔

پانچ ریاستوں میں انتخابات کا مکمل شیڈول

ریاست اترپردیش میں، جہاں اسمبلی کی سب سے زیادہ 403 نشستیں ہیں، سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔

 پہلے مرحلے میں دس فروری کو پولنگ ہوگی۔ دیگر مراحل 14، 20، 23 اور 27 فروری اور تین اور سات مارچ کو منعقد ہوں گے۔

پنجاب، اتراکھنڈ اور گوا کے انتخابات ایک ہی مرحلے میں ہوں گے جس میں پہلی ووٹنگ 20 فروری کو اس کی 117 نشستوں کے لیے اور باقی دو 14 فروری کو ان کی متعلقہ 70 اور 40 اسمبلی نشستوں کے لیے ہوگی۔

شمال مشرقی ریاست منی پور میں 22 فروری اور3 مارچ کو اپنی 60 نشستوں کے لیے دو مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ تمام اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان 10 مارچ کو کیا جائے گا۔

یوپی اسمبلی انتخابات 2022 بی جے پی کے لیے کیوں اہم ہیں

ملک پر کنٹرول مضبوط کرنے کی کوشش میں بی جے پی کے لیے انتخابی طور اگرچہ یہ تمام ریاستیں پر انتہائی اہم ہیں لیکن اتر پردیش کی ریاست نریندر مودی کی پارٹی کے لیے اپنی طاقت برقرار رکھنے اور دیگر جماعتوں کے لیے اپنی موجودگی بڑھانے میں خاص طور پر اہم کردار ادا کرنے جا رہی ہے۔

فی الحال بی جے پی کے متنازعہ اور سخت گیر رہنما یوگی آدتیہ ناتھ جو اپنے سخت رائٹ ونگ موقف کے لیے جانے جاتے ہیں، ریاست کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

اترپردیش کی 80 فیصد آبادی پر ہندوؤں پر مشتمل ہے جب کہ اقلیتیں 19 فیصد ہیں، جن میں سے مسلمان ایک اہم طبقہ ہیں۔

یوپی کئی دہائیوں سے بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کا مرکز رہا ہے، جس کی توجہ ایودھیا شہر میں رام مندر کے متنازعہ مسئلے پر مرکوز ہے جہاں 1992 میں ہندو قوم پرست گروہوں نے ایک مسجد کو توڑا تھا جو اسے بھگوان رام کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں۔ پارٹی نے اس وقت سے مندر کی تشکیل کی وکالت کی ہے اور 2019 میں ملک کی سپریم کورٹ نے نئے مندر کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس اقدام کو حکمران جماعت نے اپنی جیت قرار دیا ہے۔

بی جے پی کے لیے یوپی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نریندر مودی نے2019 میں گجرات میں اپنے معمول کے میدان جہاں وہ وزیراعظم بننے سے پہلے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک وزیر اعلی رہے تھے، کے بجائے  اترہردیش کے وارانسی شہر سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔

تاہم اس بار یوپی میں بی جے پی کے لیے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ حالیہ ہفتوں میں پارٹی کے اندر بغاوت کے آثار بڑھ گئے ہیں۔ اترپردیش میں بی جے پی سے اب تک تین وزرا سمیت دس ارکان اسمبلی کے اس پارٹی کو چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مرکزی حریف سماج وادی پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔

تاہم بی جے پی آدتیہ ناتھ اور ریاست میں نریندر مودی کی مقبولیت کا حوالہ دیتے ہوئے اپوزیشن کو شکست دینے کے لیے پراعتماد نظر آتی ہے۔

کسانوں کے بڑے پیمانے پر احتجاج کے بعد پنجاب میں ووٹ

پچھلے سال بھی کسانوں کی تحریک کی شکل میں بی جے پی حکومت کے خلاف اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہوا ہے جس کی وجہ سے نریندر مودی کو تین متنازعہ قوانین واپس لینے پڑے ہیں۔

یہ انتخابات خاص طور پر پنجاب میں بدامنی کے سیاسی نتائج کا اشارہ بھی ثابت ہونے والے ہیں جہاں سال بھر ہونے والے مظاہروں میں سب سے زیادہ مظاہرین نے حصہ لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ حکمران کانگریس بہت کم ریاستوں میں سے ایک میں اقتدار برقرار رکھنے کے لیے لڑ رہی ہے لیکن نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے اتحادی پنجاب کی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔

انتخابات سے چند ماہ قبل ریاست کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ اور سکھوں کے ایک ممتاز چہرے کیپٹن امریندر سنگھ نے کانگریس چھوڑ کر ایک نئی پارٹی پنجاب لوک کانگریس (پی ایل سی) تشکیل دی جس نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا اعلان کیا۔

کانگریس کو دہلی کی حکمران عام آدمی پارٹی سے بھی مقابلہ کرنے پڑے گا جو پنجاب میں کچھ فائدہ اٹھانے کے لیے تیاری کر رہی ہے۔

کیا بی جے پی اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں اپنی حکومت برقرار رکھے گی؟

منی پور میں چھ جماعتی مخلوط حکومت سمیت تینوں ریاستوں میں بی جے پی برسراقتدار ہے لیکن شمال مشرقی ریاست میں پارٹی کی اتحادی نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) اپنے طور پر انتخابات لڑنے کا اشارہ دے رہی ہے۔

اتراکھنڈ میں بھی کچھ مذاحمت دیکھی جارہی ہے جس میں بی جے پی نے اتوار کے روز ریاستی کابینہ کے وزیر کو برطرف کردیا ہے۔ جنگل اور ماحولیات، محنت، روزگار اور ہنر مند کی ترقی کے قلمدان رکھنے والے اتراکھنڈ کے وزیر ہراک سنگھ راوت کو ریاستی کابینہ سے ہٹا دیا گیا اور ان کی بی جے پی کی بنیادی رکنیت چھ سال کے لیے منسوخ کردی گئی۔

ہراک سنگھ راوت نے مبینہ طور پر اس سے قبل کابینہ کے اجلاس میں مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ اب ان کے کانگریس میں شامل ہونے کی افواہ ہے۔ تاہم ابھی تک اس کی کوئی باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

گوا انتخابات اس وقت ہو رہے ہیں جب بھارت میں عیسائیوں کے خلاف متعدد حملے ہوئے ہیں۔ ان کی وکالت کرنے والے گروپوں نے دعوی کیا ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کے دوران تحت اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گوا میں 25 فیصد عیسائی آبادی ہے اور یہ ریاست ایک مقبول سیاحتی مقام ہے۔

یہ سال مودی کے لیے بطور وزیر اعظم بھی بہت اہم ہے کیونکہ اومیکرون کی مختلف اقسام پھیل رہی ہیں، جس سے صحت کی دیکھ بھال کی خدمات اور اقتصادی سرگرمیوں کے لیے ایک اور خطرہ ہے۔ ملک کے الیکشن کمیشن نے روڈ شوز اور ریلیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام تقریبات کو آن لائن منعقد کرنے کو کہا ہے، اس بار انتخابات میں مہم جوئی بھی دوسرے انتخابات سے مختلف طریقے سے رہی ہے۔

ووٹوں کی گنتی 10 مارچ کو ہوگی، جو ہزاروں امیدواروں، پانچ ریاستوں اور سرکردہ جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا