نوعمر پائلٹ زارا روتھر فورڈ سولو فلائٹ میں دنیا کے گرد چکر مکمل کرکے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کا حصہ بن گئی ہیں۔
بیلجیئم اور برطانوی شہریت رکھنے والی 19 سالہ پائلٹ نے یہ کارنامہ انجام دینے کے بعد خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ بہت مشکل تھا لیکن بہت فائدہ مند بھی رہا۔‘
18 اگست 2021 کو دنیا کے گرد چکر لگانے کے لیے روانہ ہونے کے صرف پانچ ماہ بعد وہ بیلجیئم کے قصبے کورٹریجک کے ہوائی اڈے پر اتریں۔ اس موقع پر صحافیوں، ان کے دوستوں اور اہل خانہ نے ان کا استقبال کیا۔
لینڈنگ کے بعد زارا نے ایک میڈیا کانفرنس میں بتایا کہ ’یہاں واپس پہنچ کر عجیب خوشی کا احساس ہو رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ تقریباً 30 ممالک میں رکتے ہوئے ایک شاندار سفر کے بعد وہ صرف ایک ہی جگہ پر تھوڑی دیر آرام کرنے کی منتظر تھیں۔‘
ان کے بقول: ’میں اگلے ہفتے کچھ نہیں کرنا چاہوں گی۔ یہ میری سوچ سے کہیں زیادہ مشکل تھا۔‘
زارا کے والدین دونوں پائلٹ ہیں جب کہ ان کے والد نے برطانیہ کی فضائیہ میں بھی کام کیا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ روس اور سائبیریا کے وسیع منجمد علاقے پر پرواز ان کے سفر کا ’خوفناک ترین‘ مرحلہ تھا۔
’وہاں آبادیوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ اور درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سیلسیس سے نیچے تھا۔ میں سینکڑوں کلومیٹر تک بغیر کسی انسان کو دیکھے سفر کر رہی تھی۔ میرا مطلب ہے کہ وہاں بجلی کی تاریں، سڑکیں اور لوگ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ میں نے سوچا اگر میرے طیارے کا انجن بند ہو جائے تو مجھے واقعی ایک بڑا مسئلہ درپیش ہو گا۔‘
’ایک اعصاب شکن سفر‘
325 کلوگرام وزنی شارک یو ایل سنگل پروپیلر طیارے میں دنیا کا چکر لگانے کا مطلب تھا کہ زارا کو بادلوں کے گرد گھومنا پڑا اور وہ رات کو پرواز نہیں کر سکتی تھیں، اس لیے انہیں کئی بار اپنا رخ موڑنا پڑا یا جلد بازی میں لینڈنگ کرنا پڑی۔ مثال کے طور پر رواں ماہ کے آغاز پر دبئی سے تھوڑے فاصلے پر طوفان میں پھنسنے سے بچنے کے لیے انہیں ایسا کرنا پڑا۔
انہیں نومبر میں تین ہفتوں کا طویل عرصہ بھی روسی ساحلی قصبے میں گزارنا پڑا، جہاں وہ موسم کی وجہ سے پرواز نہیں کر سکتی تھیں۔ اس دوران مہربان مقامی لوگوں نے انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کی۔
وہ کرونا اور اس سے منسلک پابندیوں سے بھی نہیں بچ پائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیسا کہ چین نے انہیں وائرس کی روک تھام کی وجہ سے اپنی فضائی حدود سے گزرنے سے روک دیا، جس کا مطلب تھا کہ انہیں شمالی کوریا کی فضائی حدود سے بچنے کے لیے ایک بہت بڑا چکر لگانا پڑا اور اس دوران انہیں سمندر کے اوپر چھ گھنٹے پرواز کرنا پڑی۔
انہوں نے کہا: ’یہ ایک اعصاب شکن تجربہ تھا۔‘
زارا کو کئی ملکوں میں داخلے کی کلیئرنس حاصل کرنے کے لیے ہر وقت پی سی آر ٹیسٹ سے گزرنا پڑا۔
’ایشیا میں انتہائی سخت پابندیاں تھیں، اس لیے مجھے یہ یقینی بنانا پڑا کہ مجھے ہوٹلوں میں رہنا پڑے۔‘
لیکن 52 ہزار کلومیٹر کے سفر کے دوران وہ منفرد تجربات سے لطف اندوز بھی ہوئیں، جن میں نیویارک میں مجسمہ آزادی کے گرد اڑنا اور کیلی فورنیا میں سپیس ایکس کی لانچنگ دیکھنا، سعودی عرب کے ’متنوع‘ مناظر کے اوپر پرواز، کولمبیا میں رکنا، آئس لینڈ کے جزیرے پر ایک الگ تھلگ گھر میں رہنا اور بلغاریہ کی خوبصورت وادیوں کے اوپر سے سفر کرنا شامل ہے۔
زارا پوری دنیا کے گرد اکیلی پرواز کرنے والی سب سے کم عمر پائلٹ نہیں ہیں۔ یہ اعزاز ایک 18 سالہ برطانوی پائلٹ ٹریوس لڈلو کو جاتا ہے جنہوں نے گذشتہ سال جولائی میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
لیکن گنیز ورلڈ ریکارڈز کی طرف سے تصدیق ہونے کے بعد وہ ایسا کرنے والی سب سے کم عمر خاتون پائلٹ ہیں۔
اس سے قبل افغان نژاد امریکی پائلٹ شائستہ واعظ نے 2017 میں 29 سال کی عمر میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
زارا نے کہا کہ وہ امید کرتی ہیں کہ وہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے ہوا بازی کے شعبے میں آنے کی حوصلہ افرائی کریں گی۔