کھاد کے بحران کا سبب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ: حکومت پنجاب

پاکستان میں یوریا کھاد کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے پنجاب اور سندھ میں گندم کی فصل کو ان دنوں یوریا کھاد کی ضرورت ہے مگر کاشت کاروں کے مطابق انہیں پہلے تو کھاد مل نہیں رہی اورجو ڈیلرز دے رہے ہیں وہ دوگنی قیمت وصول کرکے بلیک میں فروخت کر رہے ہیں۔

پاکستانی کسان 26 اپریل 2020 کو شہر لاہور کے مضافات میں گندم کی کٹائی میں مصروف ہیں۔ رواں برس کسان یوریا کھاد کی قلت کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی فائل)

پاکستان میں یوریا کھاد کے بحران میں شدت آنے کے بعد پنجاب کے وزیر زراعت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کھاد بحران کی وجہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے باعث کھاد کی ہونے والی سمگلنگ ہے۔

صوبائی وزیر زراعت پنجاب حسین جہانیاں گردیزی کا کہنا ہے کہ پاکستان سے یوریا کھاد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے باعث سمگل ہورہی ہے کیوں کہ یوریا کھاد کی ایک بوری عالمی مارکیٹ میں 11 ہزار کی ہے جبکہ پاکستان میں اس کی قیمت ساڑھے 17 سو روپے ہے۔

پنجاب اور سندھ میں گندم کی فصل کو ان دنوں یوریا کھاد کی ضرورت ہے مگر کاشت کاروں کے مطابق انہیں پہلے تو کھاد مل نہیں رہی اورجو ڈیلرز دے رہے ہیں وہ دوگنی قیمت وصول کرکے بلیک میں فروخت کر رہے ہیں۔

حزب اختلاف کا موقف

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی قیادت کی کال پر پنجاب میں کھاد بحران کے خلاف ریلیاں نکالی گئی ہیں بلاول بھٹو زرداری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’حکومت زراعت کو تباہ کرکے معاشی دہشت گردی کی مرتکب ہورہی ہے۔‘

کاشت کار تنظیموں نے بھی اگلے ہفتے کھاد کی عدم دستیابی کے خلاف احتجاج کی کال دی ہے۔

کاشت کار رہنماؤں کے بقول پہلے گندم کی بووائی کے وقت ڈی اے پی کھاد کی قلت تھی اب فصل کو یوریا کھاد چاہیے تو اس کا بحران پیدا ہوگیا جس سے گندم کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کا خدشہ ہے۔

کھاد کا بحران کیسے پیدا ہوا؟ حکومت کیا کہتی ہے؟

اس سوال کے جواب میں پنجاب کے وزیر زراعت حسین جہانیاں گردیزی نے کہا کہ ’کھاد بحران کی سب سے بڑی وجہ افغانستان سے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ہے۔‘

ان کے بقول: ’یوریا کھاد کی عالمی منڈیوں میں فی بیگ قیمت 11 ہزار روپے ہے جبکہ پاکستان میں مقامی سطح پر تیاری کی وجہ سے فی بیگ قیمت 17 سو 50 روپے ہے اس لیے بہت سے لوگ یہاں سے خرید کر کھاد افغانستان کے راستے سمگل کر رہے ہیں اور اربوں روپے کما رہے جو ملک میں کھاد کی قلت کا سبب بن رہا ہے۔‘

حسین جہانیاں گردیزی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت طلب اور رسد کو برابر کرنے کی کوشش کر رہی ہے ڈیلرز کو مقررہ قیمت پر کھاد فروخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘

کھاد کی سمگلنگ روکنے کے لیے وفاقی حکومت سے بھی رابطہ کیا ہے کہ سرحدوں پر کھاد کی سمگلنگ روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی کی قیادت جو کھاد بحران کا شور مچارہی ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سندھ میں گندم کو کھاد لگانے کا وقت تو گزر چکا ہے جبکہ پنجاب میں بھی اسی فیصد تک گندم کی فصل کو کھاد لگائی جاچکی ہے تاہم جو مشکلات درپیش ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جلد یہ معاملہ حل ہوجائے گا۔‘

کسانوں کا موقف

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین چودھری انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پہلے گندم کی بووائی کے وقت ڈی اے پی شارٹ ہوگئی اور اب یوریا کھاد لگانے کا وقت آیا تو وہ نہیں مل رہی جس سے اس سال گندم کی پیداوار میں ریکارڈ کمی آئے گی اور اس سال آٹے کا بحران بھی جنم لے سکتا ہے۔

چودھری انور کے بقول: ’پاکستان میں کھاد کی مصنوعی قلت حکومتی نااہلی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے یہاں ڈیلرز دن میں کسانوں سے دوگنی قیمت وصول کر کے رات کو سپلائی دیتے ہیں۔‘

یہی وجہ ہے کہ بہاولپور، ملتان سمیت کئی شہروں میں ڈیلرز اور کسانوں میں ہاتھا پائی کے واقعات پیش آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’اگر کھاد کی قلت سمگلنگ کی وجہ سے پیدا ہوئی تو سمگلنگ کیا کسی نے باہر سے آکر روکنی تھی؟ حکومت کے وفاقی اور صوبائی وزرا نے ابھی تک کوئی اقدام کیوں نہیں کیا؟‘

کھاد ڈیلرز کا موقف

ملتان کے کھاد ڈیلر عثمان الرحمن نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کھاد کی سپلائی فیکٹریز سے ہی کم ہورہی ہے ڈیمانڈ زیادہ ہونے کی وجہ سے جتنی بوریاں لاتے ہیں مقررہ نرخوں پر فروخت کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات ضرور ہے کہ جن بڑے کاشت کاروں نے ایک ماہ پہلے ہی بکنگ کرارکھی ہے انہیں پہلے فراہم کی جارہی ہے اور جن کو دو چار بوریاں ضرورت ہیں انہیں تاخیر سے مل رہی ہے۔ لیکن بلیک میں فروخت کا الزام غلط ہے کیوں کہ حکومتی ٹیمیں بھی چیک کر رہی ہیں جن کے پاس ایک ہزار سے زائد بوریاں سٹاک موجود ہے ان کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے۔‘

کھاد بحران کے خلاف ردعمل

گندم کے کاشت کار یوریا کھاد نہ ملنے پر کافی پریشان ہیں کیوں کہ فصل بہتر نہ ہونے پر انہیں لاگت پوری نہ ہونے کا خدشہ ہے۔

چودھری انور کے مطابق کاشت کار گندم کی فصل کو کھاد نہ ملنے کی وجہ سے پیداوار میں ممکنہ کمی سے پریشان ہیں کیوں کہ انہیں نقصان کا خدشہ ہے۔

ان کے بقول: ’کاشت کار سارے کام چھوڑ کر پیسے لیے کھاد کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں کوئی ان کی سننے والا نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگلے ہفتے کاشت کار کھاد بحران کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج کریں گے تاکہ حکمرانوں کو احساس دلایا جاسکے۔‘

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کال پر گذشتہ روز (جمعے) اوکاڑہ میں ٹریکٹر مارچ کا اہتمام کیا گیا جس میں کاشت کاروں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مارچ کے شرکا نے کھاد بحران پر احتجاج ریکارڈ کرایا اور مطالبہ کیا کہ حکومت کسانوں کو یوریا کھاد مقررہ قیمت پر فراہمی کے اقدامات کرے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ عمران خان ہوش کے ناخن لیں۔ اس وقت ملک میں یوریا بحران بھی سنگین صورت حال اختیار کر چکا ہے اور مارکیٹ میں یوریا کی بوری تین ہزار 500 روپے بلیک میں فروخت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پاکستان پوری دنیا میں یوریا فروخت کرتا تھا اور آج ملک میں یوریا ڈھونڈنی پڑ رہی ہے۔ برسات سے قبل کاشت کاروں کو یوریا میسر آجاتی تو فصلوں کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوتا۔

پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ

حکومت پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان رواں سال جولائی میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔

وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد اور افغان وزیر صنعت و تجارت نے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

معاہدے کی تقریب ویڈیو لنک کے ذریعے بیک وقت کابل اور اسلام آباد میں ہوئی۔ دونوں ممالک کے درمیان ٹرانزٹ کا معاہدہ مسلسل توسیع پر چلنے لگا ہے۔

وزارت صنعت و تجارت کے مطابق پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ 11 فروری 2021 کو ختم ہوگیا تھا، پاکستان اور افغانستان نے پہلے معاہدے میں تین ماہ توسیع کی تھی۔ دوسری اور تیسری بار معاہدے میں چھ ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تاحال نیا ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ نہیں ہوسکا۔ پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا 10 سالہ معاہدہ 28 اکتوبر 2010 کو کابل میں ہوا تھا۔ معاہدے پر عمل درآمد کا آغاز 12 فروری 2011 کو ہوا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت