افغان بحران اور آر ٹو پی: ’شاید وزیر اعظم اس معاہدے سے لاعلم ہیں‘

وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں انسانی بحران پر ایک ٹویٹ میں اقوام متحدہ کے معاہدے آر ٹو پی کا حوالہ دیا لیکن سابق سینیئر سفارتی اہلکار اس حوالے کے استعمال کو غلط قرار دے رہے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان 19 نومبر، 2020 کو کابل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں۔ عمران خان متعدد مرتبہ افغانستان میں انسانی بحران  پر دنیا کی توجہ مبذول کروا چکے ہیں (اے ایف پی )

وزیراعظم عمران خان نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب افغانستان میں انسانی بحران پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کے لیے ایک ٹویٹ میں اقوام متحدہ کے معاہدے آر ٹو پی کا حوالہ دیا لیکن سینیئر سابق سفارتی اہلکار اس حوالے کے استعمال کو غلط قرار دے رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ 'آر ٹو پی کا ایک جزو یہ ہے کہ ایک طویل جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے بڑے انسانی المیے سے لوگوں کو بچانے میں مدد کی جائے۔'

ٹویٹ کے مطابق ’عالمی برادری کی جانب سے ہنگامی طور پر بھوک و فاقہ کشی کے کنارے پر کھڑے کروڑوں افغانوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد درکار ہے جو کہ متفقہ طور پر اختیار کیے گئے اقوام متحدہ کے فراہمئ تحفظ کے اصول (R2P) کے تحت یہ ہنگامی مدد فراہم کرنے کی پابند بھی ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے مختلف سابق سفارت کاروں سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ ریسپونسبیلیٹی ٹو پروٹیکٹ (آر ٹو پی) کیا ہے اور آیا اس کا اطلاق افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ہوتا ہے؟

آر ٹو پی کیا ہے؟

2005 کے ایک گلوبل سمٹ میں تمام ملکوں نے اتفاق کیا تھا کہ اگر کسی ملک میں جنگی جرائم، نسل کشی، قتل عام اور انسانی المیہ جنم لے چکا ہو تو بین القوامی برادری اس ملک کی عوام کو تحفظ اور مدد فراہم کرنے لیے اپنی فورسز بھیجے گی۔

اس نکتے کے تین بنیادی ستون ہیں۔ پہلا ستون: ہر ملک اپنی عوام کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ان کے جان مال کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

دوسرا ستون: ممالک ایک دوسرے کی ذمہ داریوں میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔

تیسرا ستون: جب کوئی ملک اپنی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے تو باقی ملک مدد کو آتے ہیں۔

ایک اعلیٰ سفارتی اہلکار کے مطابق افغانستان کی صورتحال پر آر ٹو پی کے کسی ستون کا اطلاق نہیں ہوتا۔

انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان کا مسئلہ بھوک وافلاس ہے اور اسے مالی طور پر معاونت کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’امریکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے والی ریاست کو ناکام ریاست نہیں کہا جا سکتا اور نہ کہنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ غلط تشریح کی گئی ہے اور خدشہ ظاہر کیا کہ آج اگر پاکستان آر ٹو پی کی حمایت کرتا ہے تو مستقبل میں ملک کے اندر علیحدگی پسند گروپ اسے پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔

دفتر خارجہ اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری  نے آر ٹو پی کے حوالے سے رابطہ کرنے پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

اقوام متحدہ مشن میں تعینات رہنے والے سابق سفارت کار آصف درانی نے کہا ’لگتا ہے وزیراعظم نے لاعلمی میں اس ٹرم کا استعمال کیا یا جو بھی شخص وزیراعظم کا سوشل میڈیا دیکھتا ہے اُسے علم ہی نہیں کہ آر ٹو پی کیا ہے۔‘

انہوں نے کہا ’یہ تو سیدھی سیدھی فوجی مداخلت کی دعوت ہے کہ آ کر انسانی المیے کو کنٹرول کریں۔‘

انہوں نے مزید وضاحت کی کہ افغانستان کی صورتحال مختلف ہے۔ پہلے جب افغانستان میں عالمی افواج آئیں وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت آئیں لیکن ابھی افغانستان کی صورتحال مختلف ہے انہیں مالی معاونت چاہیے جس کے لیے آر ٹو پی کا استعمال نہیں کیا جا سکتا بلکہ مالی بحران کے حل اور امداد کے لیے اقوام متحدہ پہلے ہی دنیا سے مدد کی اپیل کر چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا پاکستان تو کبھی بھی فوجی مداخلت کے حق میں نہیں رہا اور نہ کبھی ہو گا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی وہ ٹرمینالوجی جس کے اصول اور مقاصد کچھ اور ہیں، لاعلمی کی بنا پر اس کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔‘

سکیورٹی تجزیہ کار رابعہ اختر نے سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان سے کہا کہ ’ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیں سر کیونکہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے وہاں مداخلت کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا ریسپونوسبیلیٹی ٹو پروٹیکیٹ افغانستان پر لاگو نہیں ہوتا۔‘

سابق سفارت کار عبدالباسط نے کہا کہ آر ٹو پی کا افغانستان کی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں۔ ’وزیراعظم کو دیکھنا ہو گا کہ آر ٹو پی کی یہ خطرناک تشریح ان سے کس نے کی؟‘

سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر کے مطابق آر ٹو پی کی ٹرم نسل کشی، قوم پرستی کی بنیاد پر قتل عام اور دیگر انسانی جرائم کے لیے استعمال ہوتی ہے لہٰذا افغانستان کے معاملے پر اسے لاگو کرنا درست نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان