وزیراعظم عمران خان نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب افغانستان میں انسانی بحران پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کے لیے ایک ٹویٹ میں اقوام متحدہ کے معاہدے آر ٹو پی کا حوالہ دیا لیکن سینیئر سابق سفارتی اہلکار اس حوالے کے استعمال کو غلط قرار دے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ 'آر ٹو پی کا ایک جزو یہ ہے کہ ایک طویل جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے بڑے انسانی المیے سے لوگوں کو بچانے میں مدد کی جائے۔'
ٹویٹ کے مطابق ’عالمی برادری کی جانب سے ہنگامی طور پر بھوک و فاقہ کشی کے کنارے پر کھڑے کروڑوں افغانوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد درکار ہے جو کہ متفقہ طور پر اختیار کیے گئے اقوام متحدہ کے فراہمئ تحفظ کے اصول (R2P) کے تحت یہ ہنگامی مدد فراہم کرنے کی پابند بھی ہے۔‘
R2P کا ایک جزو یہ ہے کہ ایک طویل جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے بڑے انسانی المیے سے لوگوں کو بچانے میں مدد کی جائے۔ فی الوقت کروڑوں افغان باشندے بھوک جیسے خطرے سے دوچار ہیں۔ ایسے میں انسانی بنیادوں پر (افغان عوام کو) امداد کی فراہمی عالمی برادری کے ذمے ہے۔ https://t.co/EQnsY8SP1d
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) January 22, 2022
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے مختلف سابق سفارت کاروں سے رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ ریسپونسبیلیٹی ٹو پروٹیکٹ (آر ٹو پی) کیا ہے اور آیا اس کا اطلاق افغانستان کی موجودہ صورتحال پر ہوتا ہے؟
آر ٹو پی کیا ہے؟
2005 کے ایک گلوبل سمٹ میں تمام ملکوں نے اتفاق کیا تھا کہ اگر کسی ملک میں جنگی جرائم، نسل کشی، قتل عام اور انسانی المیہ جنم لے چکا ہو تو بین القوامی برادری اس ملک کی عوام کو تحفظ اور مدد فراہم کرنے لیے اپنی فورسز بھیجے گی۔
اس نکتے کے تین بنیادی ستون ہیں۔ پہلا ستون: ہر ملک اپنی عوام کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ ان کے جان مال کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔
دوسرا ستون: ممالک ایک دوسرے کی ذمہ داریوں میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔
تیسرا ستون: جب کوئی ملک اپنی عوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے تو باقی ملک مدد کو آتے ہیں۔
ایک اعلیٰ سفارتی اہلکار کے مطابق افغانستان کی صورتحال پر آر ٹو پی کے کسی ستون کا اطلاق نہیں ہوتا۔
انہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغانستان کا مسئلہ بھوک وافلاس ہے اور اسے مالی طور پر معاونت کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’امریکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے والی ریاست کو ناکام ریاست نہیں کہا جا سکتا اور نہ کہنا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ غلط تشریح کی گئی ہے اور خدشہ ظاہر کیا کہ آج اگر پاکستان آر ٹو پی کی حمایت کرتا ہے تو مستقبل میں ملک کے اندر علیحدگی پسند گروپ اسے پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔
دفتر خارجہ اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آر ٹو پی کے حوالے سے رابطہ کرنے پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اقوام متحدہ مشن میں تعینات رہنے والے سابق سفارت کار آصف درانی نے کہا ’لگتا ہے وزیراعظم نے لاعلمی میں اس ٹرم کا استعمال کیا یا جو بھی شخص وزیراعظم کا سوشل میڈیا دیکھتا ہے اُسے علم ہی نہیں کہ آر ٹو پی کیا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’یہ تو سیدھی سیدھی فوجی مداخلت کی دعوت ہے کہ آ کر انسانی المیے کو کنٹرول کریں۔‘
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ افغانستان کی صورتحال مختلف ہے۔ پہلے جب افغانستان میں عالمی افواج آئیں وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت آئیں لیکن ابھی افغانستان کی صورتحال مختلف ہے انہیں مالی معاونت چاہیے جس کے لیے آر ٹو پی کا استعمال نہیں کیا جا سکتا بلکہ مالی بحران کے حل اور امداد کے لیے اقوام متحدہ پہلے ہی دنیا سے مدد کی اپیل کر چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا پاکستان تو کبھی بھی فوجی مداخلت کے حق میں نہیں رہا اور نہ کبھی ہو گا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی وہ ٹرمینالوجی جس کے اصول اور مقاصد کچھ اور ہیں، لاعلمی کی بنا پر اس کے استعمال میں احتیاط کرنی چاہیے۔‘
سکیورٹی تجزیہ کار رابعہ اختر نے سوشل میڈیا پر وزیراعظم عمران خان سے کہا کہ ’ٹویٹ ڈیلیٹ کر دیں سر کیونکہ افغانستان ایک خود مختار ملک ہے وہاں مداخلت کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا ریسپونوسبیلیٹی ٹو پروٹیکیٹ افغانستان پر لاگو نہیں ہوتا۔‘
Please delete this tweet, Sir. R2P does not apply to Afghanistan. You cannot selectively apply its pillars to cases! Your second tweet is even more damaging. You are contradicting your own principled stance of collective action against a sovereign nation. Words matter. Pls delete https://t.co/Mg707ccowa
— Rabia Akhtar (@Rabs_AA) January 23, 2022
سابق سفارت کار عبدالباسط نے کہا کہ آر ٹو پی کا افغانستان کی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں۔ ’وزیراعظم کو دیکھنا ہو گا کہ آر ٹو پی کی یہ خطرناک تشریح ان سے کس نے کی؟‘
سابق سیکریٹری خارجہ سلمان بشیر کے مطابق آر ٹو پی کی ٹرم نسل کشی، قوم پرستی کی بنیاد پر قتل عام اور دیگر انسانی جرائم کے لیے استعمال ہوتی ہے لہٰذا افغانستان کے معاملے پر اسے لاگو کرنا درست نہیں۔