چیف جسٹس گلزار احمد: جنہوں نے کرونا کے دوران بھی عدالتیں کھلی رکھیں

چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے آخری عدالتی دن میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسز کے فیصلے کیے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھی نبھائی۔‘

فل کورٹ ریفرنس کے بعد اعلی عدلیہ کے ججز کی چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ الوداعی تصویر(تصویر: پی آئی ڈی)

پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے منگل کو اپنے آخری عدالتی دن فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہون نے بحیثیت چیف جسٹس نہ صرف کیسز کے فیصلے کیے بلکہ انتظامی امور کی ذمہ داری بھی نبھائی۔

انہوں نے بلند ترین سطح پر زیر التوا کیسز کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی چیف جسٹس کی ذمہ داری ملی کووڈ 19 کا معاملہ شروع ہو گیا۔ مجھے کام کے ساتھ ساتھ ججز اور سٹاف کی صحت کا بھی خیال رکھنا تھا۔‘

’میری تمام تر پیشہ ورانہ کامیابیوں کا سہرا میرے والد محمد نور ایڈووکیٹ کو جاتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کا جج بھی بنا تو کام ایمان داری سے کیا۔

’نومبر 2011 میں سپریم کورٹ کا جج بنا جبکہ دسمبر 2019 میں بطور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا حلف اٹھایا۔ ‘

سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے وقت جنوری 2019 میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 40،481 تھی جب کہ دسمبر 2019 میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ریٹائر ہوئے تو زیر التوا مقدمات میں پانچ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ تاہم انہوں نے کریمنل کیسز کو کافی حد تک نمٹا دیا تھا۔

چیف جسٹس گلزار نے 20 دسمبر، 2019  کو حلف لیا تو اُس وقت سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق زیر التوا مقدمات 45،275 تھے۔

2020 اور 2021 میں کرونا وبا کی وجہ سے اور جسٹس قاضی فائز عیسی کے لارجر بینچ کے باعث معمول کے کیسز التوا کا شکار ہوتے گئے، جس کے بعد جنوری 2022 تک عدالتی ریکارڈ کے مطابق زیر التوا مقدمات 53 ہزار سے تجاوز کر کے 53،575 تک پہنچ گئے جو عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں بلند ترین سطح ہے۔

حسب روایت سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس کے آخری عدالتی دن اُن کے اعزاز میں فُل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ہوا جس میں تمام ججز کے علاوہ سپریم کورٹ اور وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

فُل کورٹ ریفرنس سے چیف جسٹس گلزار احمد کے علاوہ نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال، اٹارنی جنرل پاکستان، صدر سپریم کورٹ بار اور وائس چئیرمین پاکستان بار نے خطاب کیا۔

سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کا کریڈٹ چیف جسٹس گلزار کا ہے: جسٹس عمر عطا بندیال

نامزد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے الوداعی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بطور ستائیسویں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو دو چیلنجر کا سامنا رہا۔ پہلا بڑا چیلنج کرونا وبا تھی جس کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں مشکلات سامنے آئیں۔ کرونا وبا کے باعث مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

سپریم کورٹ نے کرونا وبا کے دوران بھی عدالتوں کو کھلا رکھا تاکہ لوگوں کو انصاف ملتا رہے ۔ انہوں نے مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد سمیت سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کرونا مرض میں مبتلا ہوئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے سامنے دوسرا بڑا چیلنج ساتھی جج کے خلاف صدارتی ریفرنس تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں دس رکنی لارجر بینچ نے 61 سماعتیں کیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے معاملے پر چیف جسٹس گلزار احمد نے آزاد ججز کے نام تجویز کیے۔ پہلی خاتون جج کو سپریم کورٹ لانے کا اعزاز بھی چیف جسٹس گلزار احمد کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس گلزار احمد نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کے صدارتی ریفرنس پر اہم فیصلہ دیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو صاف اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کا بھی حکم دیا گیا۔

’زیر التوا مقدمات آنے والے چیف جسٹس کے لیے بڑا چیلنج‘

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ کرونا میں عدالت ایک دن بھی بند نہیں ہوئی پھر بھی مقدمات کا بوجھ 53 ہزار سے تجاوز کر گیا۔ زیر التوا مقدمات کا بوجھ آنے والے چیف جسٹس کے لیے بڑا چیلنج ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ قانون کی بالادستی کے لیے ماضی کے تلخ تجربات کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔ کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ آئین توڑنے والا سزا پا کر بھاگ جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بار اور بنچ میں ایسی شخصیات موجود تھیں جنہوں نے طاقت کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے۔ چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس بندیال، جسٹس سجاد علی شاہ ان باہمت ججز میں شامل ہیں۔ جسٹس مقبول باقر بھی ان دلیر ججز کا حصہ ہیں جو ابھی ریٹائر نہیں ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ اپنی آزادی کے دفاع میں متحد ہوتی تو 2007 میں کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی۔ جسٹس گلزار احمد کے دور میں عدلیہ نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں لیکن عدلیہ کی آزادی اور ججز کے احتساب کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔

’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ختم کرنا تاریخ ساز فیصلہ‘

صدر سپریم بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے چیف جسٹس گلزار احمد کے الوداعی ریفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد، لاہور ہائی کورٹ، پشاور ہائیکورٹ ججز کی تعیناتی میں سینیارٹی کے اصول پامال کیے گئے۔ میرٹ کے برعکس تعیناتیوں کے باعث عدلیہ کو سنگین بحران کا سامنا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔ وکلا تنظیموں نے آئین اور قانون کی بالادستی پر کبھی سمجھوتہ نہیں  کیا۔ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں اور ان ہر عملدرامد کے معیار یکساں ہوں گے تو کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا۔

احسن بھون نے قاضی فائز عیسی ریفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک جرات مند جج نے ایک ادارے کےذیلی سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کر کے کیا آئین سے روگردانی کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور ان کے اہل خانہ ہر کیچڑ اچھالا گیا۔ جسٹس قاضی فائزعیسی کے خلاف جھوٹے ریفرنس ختم کرنے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخ ساز ہے۔

ان کے والد بھی وکیل تھے

سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی ہے۔ وہ دو فروری 1957 میں ایڈووکیٹ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم گلستان سکول سے حاصل کی اور ایس ایم لا کالج سے قانون کی ڈگری لی۔

جسٹس گلزار احمد 1986 میں ہائی کورٹ کے وکیل کے طور پر رجسٹر ہوئے اور دو برس بعد ہی ان کی سپریم کورٹ میں انرولمنٹ ہو گئی تھی۔

وہ 2002 میں سندھ ہائی کورٹ کے جج بنے، اس سے دو سال قبل جنرل پرویز مشرف کے عبوری آئینی حکم کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی ججوں نے حلف اٹھا لیا تھا۔ پانچ برس بعد 2007 میں دوسری بار عبوری آئینی حکم کے تحت حلف کا حکم جاری کیا گیا لیکن انہوں نے حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ میں ججوں کی بحالی کا آغاز ہوا۔ اس موقعے پر جسٹس گلزار احمد دوسرے مرحلے میں دیگر ججوں کے ساتھ بحال ہو گئے۔ انہیں 2011 میں سپریم کورٹ میں تعینات کیا گیا۔

جسٹس گلزار احمد پانامہ لیکس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے بینچ کا حصہ تھے۔

انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’نوازشریف عوامی عہدے پر تھے۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن میں واقع فلیٹوں سے متعلق عوام اور عدالت کو حقائق سے آگاہ کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان