کوئٹہ میں لڑکیوں کے لیے ’محفوظ فٹ بال اکیڈمی‘

سونیا مصطفیٰ نے پہلے چھوٹے پیمانے پر فٹ بال کلب بنایا۔ وہاں لڑکیوں کو تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے بعد زیادہ لڑکیوں کی طرف سے فٹ بال کھیلنےکی خواہش پر سونیا نےویمن فٹ بال اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

کوئٹہ ایوب سٹڈیم کے اس گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلتی بچیاں خود کو محفوظ اور بہتر ماحول میں محسوس کرتی ہیں جو کچھ عرصہ قبل تک ایک ناممکن سی چیز لگتی تھی۔

ان کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں تھی جہاں وہ جاکر کھیل سکیں اور کسی کوچ سے مزید کھیل کی تربیت بھی حاصل کرسکیں۔

سونیا مصطفیٰ پاکستان کی پہلی وومن فٹ بال کی ریفری ہیں۔ جنہوں نے فیفا کا ٹیسٹ بھی پاس کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں فٹ بال اور لڑکی کا کھیلنا ایک مشکل کام ہے۔

سونیا نے بتایا کہ بحیثیت فٹ بال کھلاڑی انہیں بہت مشکلات کا سامنا رہا۔ انہی مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے پہلے ایک چھوٹے پیمانے پر فٹ بال کلب بنایا۔

اس کلب میں لڑکیوں کو تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا جو کچھ عرصے تک چلتا رہا۔ پھر تعداد میں اضافےاور لڑکیوں کی طرف سے کھیلنےکی خواہش پر سونیا نےوومن فٹ بال اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

سونیا مصطفیٰ نے بتایا کہ کلب میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافے کے بعد ہم نے اس کو توسیع دینے کا ارادہ کیا اور آج اس اکیڈمی کے تحت چار کوچز تربیت دے رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی  28  لڑکیاں ہمارے ساتھ رجسٹرڈ ہیں جن میں روزانہ 15 سے 18 بچیاں یہاں فٹ بال سیکھنے کے لیے آتی ہیں۔

سونیا کہتی ہیں کہ ’یہاں ہم نے لڑکیوں کو ایک محفوظ ماحول دیا ہوا ہے جس میں بلاخوف و خطر اپنے کھیل کو بہتر طریقے سے وقت دیتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جس طرح پنجاب میں فٹ بال کے کھلاڑیوں کے لیے پورا سال کیمپ لگتا ہے اس طرح بلوچستان میں نہیں کیا جاتا بلکہ جب کوئی ایونٹ ہوتا تو کیمپ لگایا جاتا تھا۔ اس کے بعد کھلاڑیوں کے تربیت کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔

پاکستان کی پہلی خاتون ریفری سونیا کہتی ہیں کہ پہلے بہت کم خواتین باہر نکلتی تھیں اور کھیلوں کا حصہ بنتی تھیں۔ لیکن اب کچھ ماحول تبدیل ہوگیا ہے۔ لڑکیاں مختلف کھیلوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چونکہ فیفا کی طرف سے پاکستان پرفٹ بال کھیلنےپر پابندی ہے اس لیے کوئی قومی ایونٹ نہیں ہوتا لیکن ہم صوبائی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کرواتے ہیں۔

سونیا کے بقول: جب میں نے اکیڈمی شروع کی تو والدین آتے تھے۔ جن کے بہت سے ایشوز تھے اور وہ لڑکیوں کو بھیجنے سے کتراتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ والدین سوال کرتے تھےکہ ماحول کیسا ہے؟ کیا لڑکیاں محفوظ ہوں گی؟

سونیا کہتی ہیں کہ میں نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے والدین کو دعوت دی کہ وہ یہاں آکر ماحول خود دیکھ لیں اور اطمینان کرلیں۔ جس پر نہ صرف انہوں نے یہاں کا دورہ کیا اور جب ماحول دیکھا تو خوش ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد والدین نے خود لڑکیوں کو یہاں بھیجنا شروع کردیا جس کے بعد روزانہ ہم یہاں ان کو تربیت دیتے ہیں اور بعد میں یہ لڑکیوں خوشی خوشی گھروں کو چلی جاتی ہیں۔

اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والی اکیڈمی

سونیا نے بتایا کہ میں نے چونکہ لڑکیوں کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس اکیڈمی کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا اس لیے گذشتہ دو سالوں سے میرے اور کھیلنے والی کھلاڑیوں کے خرچے سے یہ چل رہی ہے۔ لیکن آخر کب تک ہم اپنے پیسوں سے اس کو چلاتے رہیں گے۔ جس کے لیے ہم چاہتے ہیں کہ حکومت بلوچستان اور محکمہ کھیل ہماری مدد کرے اور اکیڈمی کے لیے فنڈ جاری کرے۔

سونیا نے بتایا کہ دوسرا جو اہم مسئلہ ہمیں درپیش ہے وہ یہ کہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹیشن کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ یہ سب اپنی مدد آپ کے تحت یہاں تک آتی ہیں اور روزانہ تربیت لیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ان لڑکیوں کو آنے اور جانے کے لیے سواری کا بندوبست کیا جائے تو ہم مزید لڑکیوں کو بھی تربیت دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روزی بخت بھی ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔ جو اس اکیڈمی میں تربیت حاصل کررہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں آنے سے قبل اسے فٹ بال کے کھیل کے حوالے سےکوئی معلومات نہیں تھیں۔

روزی بخت نے بتایا کہ اس سے قبل ہم خود کھیلتے تھے لیکن ہمیں اس کھیل کے آداب اور تیکنیک کے بارے میں کوئی علم نہں تھا کہ بال کو کس طرح شوٹ کرنا ہے۔ ہارڈ بال ان بال کیا ہے۔

روزی کہتی ہیں کہ یہ جگہ محفوظ اور پرسکون ہے اور ہم یہاں خود کو محفوظ سمجھتی ہیں۔ کوئی ڈر نہیں لگتا ہے۔ ہم چاہتی ہیں کہ اس طرح کے مزید جگہیں بنیں تاکہ میری طرح اور بھی کھلاڑی سامنے آسکیں۔

اس اکیڈمی کے کوچ صہیب یوسفزئی کہتےہیں کہ اس کی ضرورت ہمیں اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ لڑکے تو کہیں بھی کھیل سکتے ہیں اور تربیت لینے کے لیے جابھی سکتےہیں، مسئلہ لڑکیوں کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ دو سال قبل جب سونیا نے اس اکیڈمی کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو میں بھی ان کے ساتھ ہوگیا اور ابھی  تک ہم اس کو کامیابی سے چلارہے ہیں۔

صہیب کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت کی طرف سے مدد مل جائے تو یہاں سے بہت سے اچھے کھلاڑی ابھر کر سامنے آسکیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل