روس یوکرین کے ایٹمی پلانٹ میں مداخلت کر رہا ہے: ایٹمی توانائی ایجنسی

دوسری جانب امریکہ کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ واشنگٹن یوکرین کو جیٹ طیاروں کی فراہمی کے لیے پولینڈ کے ساتھ معاہدے پر کام کر رہا ہے۔

عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی چار مارچ، 2022 کو ایک پریس بریفنگ میں یوکرین کے ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے اپ ڈیٹ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی نے کہا ہے کہ روسی افواج یوکرین کے سب سے بڑے زیپرازحزیا جوہری پلانٹ پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہیں، جس پر انہوں نے گذشتہ ہفتے قبضہ کیا تھا۔

ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی نے اتوار کو کہا کہ یوکرینی عملے کو اب کسی بھی آپریشن، یہاں تک کہ دیکھ بھال کے لیے روسیوں سے منظوری لینا ضروری ہے، اور یہ کہ انہوں نے کچھ موبائل نیٹ ورکس اور انٹرنیٹ کو بند کر کے معمول کے مواصلات میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

یوکرین کی ریگولیٹری اتھارٹی نے کہا کہ فون لائنز کے ساتھ ساتھ ای میل اور فیکس اب کام نہیں کر رہے ہیں۔

گروسی نے کہا کہ وہ ’ان پیش رفتوں کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پلانٹ کو محفوظ طریقے سے چلانے کے لیے ’عملے کو غیر ضروری بیرونی مداخلت یا دباؤ کے بغیر، مستحکم حالات میں اپنے اہم فرائض انجام دینے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘


امریکہ یوکرین کو جیٹ طیاروں کی فراہمی کے لیے کام کر رہا ہے: اینٹنی بلنکن

امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ امریکہ یوکرین کو جیٹ طیاروں کی فراہمی کے لیے پولینڈ کے ساتھ معاہدے پر ’فعال طریقے سے کام کر رہا ہے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اتوار کو مشرقی یورپ کے ملک مالدووا کے دورے کے موقعے پر صحافیوں سے بات چیت میں امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’میں وقت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ہم اس معاملے کو بڑی تیزی سے دیکھ رہے ہیں۔‘

بلنکن نے کہا کہ امریکہ یوکرینی حکام کے ساتھ بڑے فعال انداز میں رابطے میں تاکہ اس وقت ان کی ضروریات کا تازہ ترین جائزہ لیا جا سکے۔

بلنکن کے بقول: ’جیسا کہ ہم نے یہ جائزہ لیا ہے ہم یہ دیکھنے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ ہم اور اتحادی اور شراکت دار یوکرین کو کیا فراہم کر سکتے ہیں‘ تاکہ کیئف کے دفاع کو روسی حملے کے خلاف مضبوط بنایا جا سکے۔

بلنکن کا مزید کہنا تھا کہ ’اب ان ہم طیاورں کے سوال پر سرگرمی سے غور کر رہے ہیں جو پولینڈ یوکرین کو فراہم کر سکتا ہے اور یہ دیکھ رہے ہیں کہ اگر پولینڈ ان طیاروں کی فراہمی کا فیصلہ کرے تو ہم کس طرح پولینڈ کے پاس طیاروں کی کمی پورا کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‘

کئی امریکی ذرائع ابلاغ نے ہفتے کو رپورٹ کیا تھا کہ امریکی حکام نے انہیں ممکنہ معاہدے کے بارے میں بتایا ہے جس کے تحت پولینڈ امریکی ایف 16 لڑاکا طیاروں کے بدلے سوویت دور کے طیارے یوکرین بھیجے گا۔

دوسری طرف 10 دن قبل روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے جنگ کے معاشی اور انسانی نقصانات میں اضافہ ہوا ہے اور حکام نے سینکڑوں شہریوں کے مارے جانے کی اطلاع دی ہے۔ مغربی اتحادیوں کی طرف سے یوکرین میں ہتھیار، گولہ بارود اور رقوم دی گئی ہیں۔

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل اور خبروں کے چینل این بی سی نے وائٹ ہاؤس کے حکام کے حوالے سے رپورٹس شائع کی ہیں جن میں حکام کا کہنا تھا کہ’ہم اس معاملے میں پولینڈ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور ہمارے دوسرے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ صلاح مشورہ کر رہے ہیں۔‘

ادھر کیئف نے مغربی ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ محصور ملک کے لیے جنگی طیاروں سمیت فوجی امداد میں اضافہ کرے۔ یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی نے مشرقی یورپی ہمسایہ ملکوں سے روسی ساختہ طیارے فراہم کرنے کی درخواست کی ہے کہ کیوں کہ یوکرینی پائلٹ انہیں اڑانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

واشنگٹن نے گذشتہ ہفتے کیئف کے لیے 35 کروڑ ڈالر کے فوجی سازوسامان کی منظوری دی تھی جو کہ امریکی تاریخ کا سب سے بڑا پیکج ہے۔


یوکرین پر مصالحت کی کوشش، اسرائیلی اور روسی رہنماؤں کی ملاقات

یوکرین پر روسی حملے میں ثالثی کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے ماسکو کا دورہ کیا ہے جہاں انہوں نے  روسی صدر ولادی میر پوتن سے ملاقات کی۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو اسرائیلی وزیر اعظم نے کریملن میں صدر پوتن سے تین گھنٹے کی طویل ملاقات کی، جس کے بعد انہوں نے یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی کو کال کی اور جرمن دارالحکومت برلن میں رکنے کے بعد اتوار کو ملک واپس پہنچے۔

24 فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد نفتالی بینیٹ پہلے عالمی رہنما ہیں جنہوں نے پوتن سے ملاقات کی ہے۔ ان سے کیئف نے ماسکو سے بات چیت کرنے کی درخواست کی تھی۔

بینیٹ اب تک اس تنازعے میں محتاط رہ کر چلے ہیں تاکہ اسرائیل کا روس کے ساتھ نازک سکیورٹی تعاون قائم رہے، جس کی افواج اس کے شمالی ہمسایہ شام میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

 

انہوں نے روسی حملے کی مذمت کرنے میں اہم اتحادی امریکہ کا بھی زیادہ ساتھ نہیں دیا ہے اور اصرار کیا ہے اسرائیل کے یوکرین اور روس دونوں سے اچھے تعلقات ہیں۔

وزیر اعظم بینیٹ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اس سفارتی دورے میں انہوں نے دو بار صدر زیلنسکی اور ایک بار فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں سے بات کی۔

برلن میں انہوں جرمن چانسلر اولاف شولز  سے ملاقات بھی کی۔ چانسلر کے ترجمان نے اتوار  کو ایک بیان میں کہا کہ دونوں رہنماؤں نے ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کا مقصد ’یوکرین میں جنگ کو جتنی جلدی ممکن ہو ختم کروانا ہے۔‘

اے ایف پی کے مطابق اس دورے پر جانے سے پہلے بینیٹ نے فون پر بار بار صدر پوتن اور صدر زیلنسکی سے بات کی تھی۔ صدر زیلنسکی یہودی ہیں اور ان کے کچھ اہل خانہ اسرائیل میں بستے ہیں۔

واشنگٹن میں سابق اسرائیلی سفیر مائیکل اورن نے اے ایف پی کو بتایا: ’بینیٹ کا جانا جرات مندانہ لیکن خطرناک بھی ہے۔ سب کا انحصار پوتن کی ذہنی کیفیت پر ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حملے سے پہلے ماسکو سفارتی بات چیت کی جانب راغب نہیں تھا مگر اب ’روس ایک الگ پوزیشن میں ہے۔ پوتن اس مشکل سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈ رہے ہوں گے اور بینیٹ شائد انہیں سیڑھی فراہم کریں۔‘

ایک اسرائیلی عہدیدار کے مطابق بینیٹ نے تین گھنٹے تک پوتن سے ملاقات کی، جس کی معاونت امریکہ، فرانس اور جرمنی نے کی۔

کریملن کا کہنا تھا کہ ملاقات میں ’یوکرین میں صورت حال کے مختلف زاویوں‘ پر بات کی گئی۔


یوکرین کی مزید جنگی طیاروں کی اپیل

یوکرینی صدر وولودی میر زیلنسکی نے روسی حملے سے اپنے ملک کے تحفظ کے لیے امریکی قانون سازوں سے مزید جنگی طیاروں اور روسی تیل کی درآمدات کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ 

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق 300 سے زیادہ امریکی قانون سازوں کے ساتھ ہفتے کو ایک ویڈیو کال میں صدر زیلنسکی نے آغاز میں ہی کہا کہ یہ شاید آخری بار ہو کہ وہ زندہ نظر آرہے ہوں۔ 

24 فروری کو روس کی یوکرین پر چڑھائی کے بعد سے زیلنسکی دارالحکومت کیئف میں ہی ہیں، جس کی جانب شمال سے ایک طویل روسی فوجی قافلہ بڑھ رہا ہے۔ 
 

صدر زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کو اس کی فضائی حدود کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے، جس میں نیٹو کی جانب سے یوکرینی فضائی حدود پر نو فلائی زون قائم کر کے یا یوکرین کو مزید جنگی طیارے دے کر مدد کی جا سکتی ہے۔ 

زیلنسکی نے نیٹو سے نو فلائی زون کا مطالبہ کر رکھا ہے تاہم نیٹو نے اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس سے روس سے وسیع جنگ چھڑ سکتی ہے۔ 

اس کال کے بعد امریکی سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے کہا کہ صدر زیلنسکی چاہتے ہیں کہ امریکہ مشرقی یورپی اتحادیوں سے یوکرین کو جنگی جہازوں کی فراہی میں مدد کرے۔ 

انہوں نے کہا: ’میں طیاروں کی منتقلی کو آسان بنانے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کروں گا۔‘


روس میں ویزا کارڈ سروس بند

رقوم منتقلی کی امریکی کمپنی ویزا نے کہا کہ وہ روس کے لیے اپنی سروسز معطل کر رہی ہے۔

اس بات کا اعلان کمپنی نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کیا جس میں کہا گیا: ’کمپنی آنے والے دنوں میں تمام ویزا ٹرانزیکشنز کو روکنے کے لیے روس کے اندر اپنے کلائنٹس اور پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور یہ فوری طور پر مؤثر ہوگا۔‘

کمپنی نے مزید کہا کہ ’ایک بار یہ عمل مکمل ہونے کے بعد روس میں جاری کردہ ویزا کارڈز کے ذریعے ملک سے باہر لین دین ممکن نہیں ہو گا اور روس کے باہر مالیاتی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ویزا کارڈز اب روسی فیڈریشن کے اندر کام نہیں کریں گے۔‘

ویزا کمپنی کے چیئرمین اور سی ای او الفریڈ کیلی نے کہا کہ یہ فیصلہ یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

24 فروری کو روسی صدر ولادی میر پوتن نے یوکرین میں فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ روسی رہنما نے زور دے کر کہا تھا کہ ماسکو کے منصوبوں میں یوکرین کے علاقوں پر قبضہ شامل نہیں ہے۔ روسی حملے کے بعد امریکہ، یورپی یونین، اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر ممالک اور عالمی کمپنیوں نے روسی افراد اور قانونی اداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔


پابندیاں روس پر جنگ کے مترادف ہیں: پوتن  

روسی صدر ولادی میر پوتن نے کہا ہے کہ یوکرین پر حملے کے بعد ان کے ملک پر مغرب کی پابندیاں روس پر ’جنگ کا اعلان‘ کرنے کے مترادف ہیں۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق روسی ایئرلائن ایئرو فلوٹ کے ملازمین سے ایک گفتگو میں انہوں نے یوکرینی حکام کی مزاحمت کو مسئلے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا: ’اگر وہ یہی کرتے رہے جو وہ کر رہے ہیں، تو وہ یوکرینی ریاست کے مستقبل پر سوالیہ نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا: ’اگر ایسا ہوا تو اس کے مکمل ذمہ دار وہ ہوں گے۔‘

مغربی پابندیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’یہ پابندیاں ہم پر مسلط کی جا رہی ہیں۔ یہ جنگ کا اعلان کرنے کے برابر ہے۔ مگر شکر ہے ابھی ایسا ہوا نہیں ہے۔‘

انہوں نے نو فلائی زون کے یوکرین کے مطالبے پر نیٹو کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر غیر ملکی طاقتوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو ’نہ صرف یورپ بلکہ پوری دنیا کے لیے بھیانک اور تباہ کن نتائج‘ برآمد ہوں گے۔


یوکرینی شہروں میں جنگ بندی قائم نہ رہ سکی 

گذشتہ روز یوکرینی شہروں ماریوپول اور ولنوواخا سے رہائشیوں کے انخلا کے لیے انسانی راہداری قائم کرنے اور جنگ بندی پر اتفاق زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق معاہدے کے ٹوٹنے کے بعد روس نے محاصرے میں لیے گئے جنوب مشرقی شہر ماریوپول میں دوبارہ فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

فریقین نے عارضی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا الزام ایک دوسرے پر لگایا ہے۔

ماریوپول میں یوکرینی حکام نے جنگ بندی کے دوران بڑے پیمانے پر شہریوں کے انخلا کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں روسی گولہ باری کی وجہ سے آپریشن ملتوی کرنا پڑا۔

روس نے یوکرینی فورسز پر ماریوپول کے رہائشیوں کو وہاں سے نکلنے سے روکنے کا الزام لگایا ہے۔

عالمی تنظیم ’ڈاکٹرز ودھ آؤٹ بارڈرز‘ (ایم ایس ایف) نے خبردار کیا ہے کہ شہر میں انسانییت کے لیے صورتحال ’تباہ کن‘ ہے اور یہ کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انخلا کی راہداری قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔

دوسری جانب روسی افواج شمال اور مغرب سے دارالحکومت کیئف کے قریب پہنچ رہی ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شمالی قصبے چرنی ہیو میں بڑے پیمانے پر تباہی کے مناظر دیکھے گئے ہیں جہاں گولہ باری، میزائل اور فضائی حملوں میں درجنوں شہری مارے گئے ہیں۔


روس میں میڈیا بلیک آؤٹ

یوکرین پر حملے کے بعد روس کا میڈیا بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے جس کے تحت بی بی سی، سی این این، آر اے آئی، اے آر ڈی اور زیڈ ڈی ایف سمیت بین الاقوامی نشریاتی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ روس سے رپورٹنگ بند کر رہے ہیں۔

ایوارڈ یافتہ آزاد روسی اخبار ’نووایا گازیٹا‘ کا کہنا ہے کہ وہ روس کے نئے متنازع قانون کی روشنی میں یوکرین میں جنگ کی رپورٹنگ بھی بند کر دے گا۔


مذاکرات کی کوششیں جاری

اے ایف پی کے مطابق یوکرین کے ایک مذاکرات کار کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ لڑائی کے خاتمے کے لیے بات چیت کا تیسرا دور کل (پیر کو) ہوگا۔

روسی صدر ولادی میر پوتن نے جرمن چانسلر کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو یوکرین کی جانن سے اس کے تمام مطالبات مانے جانے کی صورت میں بات چیت کے لیے تیار ہے۔

تاہم امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ ’شاید جلد ختم نہ ہو‘ اور یہ کہ امریکہ اور یورپی اتحادیوں کو روس پر اس وقت تک دباؤ برقرار رکھنا چاہیے جب تک کریملن جنگ بند نہیں کر دیتا


انسانی بحران کا خدشہ

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے روس کے حملے کے بعد سے 13  لاکھ سے زیادہ لوگ یوکرین سے ہمسایہ ممالک میں انخلا کر چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے یوکرین کے جنگ زدہ علاقوں میں خوراک کے بحران کے بارے میں خبردار کیا ہے جب کہ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ جنگ کے تناظر میں خوراک کی پیداوار اور برآمدات میں رکاوٹ سے عالمی سطح پر فوڈ سکیورٹی میں رکاؤٹ کے خطرے کا بھی سامنا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا