سیاست کی موجودہ حالت جمہوریت کے خلاف ہے: سہیل وڑائچ

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے اور ملک کی سیاسی صورت حال پر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کی انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو۔

پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ چند حکومتی اتحادی اپوزیشن کے ساتھ مل چکے ہیں جو وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا چکی ہے لیکن اس پر قومی اسمبلی میں ووٹنگ باقی ہے۔

پاکستان میں سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ سیاست کی موجودہ صورت حال جمہوریت کے خلاف ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا تحریک عدم اعتماد پیش کرنا ایک جمہوری طریقہ ہے لیکن اراکین کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روکنا غیر جمہوری رویہ ہے۔

’اس صورت حال سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا بلکہ حالات کشیدہ ہوئے تو متحرک سیاسی گروپوں کی بجائے کسی تیسرے کے ہاتھ میں فیصلہ چلا جائے گا جو کسی کے حق میں نہیں۔‘

ادھر وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ حزب اختلاف کی ’بدنیتی‘ پر مبنی تحریک عدم اعتماد نے سیاست میں تلخی گھول دی ہے۔ انہوں نے سنیچر کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ جمہوریت تقسیم کا نظام نہیں بلکہ سیاسی اتفاق رائے پر مبنی نظام ہے۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ محاذ آرائی مشکل نہیں لیکن مفاہمت ایک مشکل کام ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں اس قدر تقسیم اور اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ ایک دوسرے سے بات کرنا مشکل ہو جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول حکومت کے ہاتھ سے گیم نکل چکی ہے کیونکہ حکومتی اتحادی اپوزیشن کے ساتھ مل چکے ہیں اور حزب اختلاف یہ حکمت عملی صرف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے نہیں بلکہ آئندہ انتخابات کے لیے بنا رہی ہے۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد پر منہ کی کھانی پڑے گی۔ کوئٹہ میں ہفتے کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ حکومت اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کرے گی اور حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو گی کیونکہ حکومت سیاسی محاذ پر پراعتماد ہے۔

انہوں نے حزب اختلاف پر زور دیا کہ وہ محاذ آرائی کی سیاست سے گریز کرے اور ملک کی بہتری کے لیے کام کرے۔

ان سے پوچھا گیا ان کے خیال میں وفاق میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے کتنے امکانات ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ 60 فیصد، تاہم جب پنجاب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بھی صورتحال حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکی ہے، اور حکومت کے لیے ’بغاوت کو قابو میں لانا اتنا آسان نہیں ہوگا۔‘

حکومت کے پنجاب میں وزیر اعلیٰ تبدیل کرنے کے اشارے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اس پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا علیم خان، جو پی ٹی آئی کے اہم رکن ہیں، کی لندن میں نواز شریف سے ملاقات حکمران جماعت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوسکتی ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول یہ معاملہ بھی اب پنجاب کی حد تک نہیں رہا بلکہ پی ٹی آئی میں ہم خیال گروپ بھی اب وزیر اعلیٰ پنجاب کی بجائے وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے متحرک دکھائی دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان نے جو اداروں سے ٹکراؤ کا فیصلہ کیا ہے اس سے انہیں نقصان ہوگا۔‘

ان کے مطابق: ’عمران خان کی کارکردگی تو مایوس کن تھی ہی اب سیاسی محاذ پر بھی وہ بند گلی میں داخل ہونے لگے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان