تنہا بسنے والے دو معمر ہمسائیوں میں ہوجانے والی دوستی کی کہانی مصری خاتون فلم ساز کی فلم ’مستیکہ اور ریحان‘ اسلام میں ہونے والے خواتین کے بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں مرکز نگاہ رہی۔
دینہ عبد السلام کی ’مستیکہ اور ریحان‘ بچوں کے چھوڑ جانے کے بعد تنہا رہ جانے والی ایک بیوہ معمر خاتون مستیکہ اور معمر مرد ریحان کے درمیان ہونے والی دوستی کی کہانی ہے، جو اوپر نیچے فلیٹس میں رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ایک رسی سے بندھی باکسٹ کی مدد سے اشیا شیئر کرتے ہیں۔
معمری میں اکیلے پن کی درد اور دکھ سکھ بانٹنے کے ساتھی کی ضرورت کو اجاگر کرتی یہ کہانی دل کو چھو گئی اور اسے سب سے زیادہ پذیرائی بھی ملی۔
ایک نانا کی زبانی ان کی جوانی اور رومانس کی یادیں، کئی سال کی شادی کے بعد شوہر کے چھوڑ جانے پر تلخ ہو جانے والی خاتون کا زندگی کی جانب واپس آنا، دو علیحدہ ثقافتوں کی خواتین کا ایک دوسرے میں مشابہت کو سمجھنا۔
یہ کچھ اور موضوعات تھے جن پر بنی فلموں کی نمائش اسلام آباد میں جاری وومن انٹرنشنل فلم فیسٹیول 2022 میں جمعے کو پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس میں ہوئی۔
چھ سالوں سے جاری یہ فیسٹیول ملکی اور غیر ملکی خواتین آزاد فلم سازروں کو اپنا کام پیش کرنے کے لیے ایک اہم پیلٹ فارم فراہم کرتا ہے، جو اکثر فلم سازوں کو مہیہ نہیں ہوتا۔
یہ فیسٹیول مدیحہ رضا کی تخلیق ہے، جو آزاد فلم ساز ہیں اور جنہوں نے سماجی موضوعات پر یو این ویمن، یونیسیف اور دیگر اداروں کے لیے فلمیں بنائی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس فیسٹیول کا مقصد خواتین فلم سازوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنانا تھا جہاں ان کے کام کو فروغ ملے، انہیں پذیرائی ملے اور ان کی حوصلہ افزائی ہو۔
ان کے مطابق جب ان کا کیریئر شروع ہوا تھا تو ان کے لیے ایک خاتون فلم ساز کے طور پر اس طرح کے مواقع نہیں تھے۔ انہوں نے وومن تھرو فلم کے نام سے ایک انیشیٹو کا آغاز کیا اور پھر 2016 میں خواتین کا بین الاقوامی فلم فیسٹیول وجود میں آیا۔
اس فیسٹیول میں اب تک خواتین کی بنائی ہوئی 100 سے زائد فلموں کی عوامی طور پر نمائش ہو چکی ہے۔
میلے میں فلموں کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟
اس حوالے سے مدیحہ رضا نے بتایا کہ ہر سال نامزدگیوں کی کال ویب سائٹ پر جاری کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان اور دنیا بھر سے ہزاروں فلمیں بھیجی جاتی ہیں۔ ان سب میں سے مدیحہ فیسٹیول میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی فلموں کی پڑتال کرتی ہیں۔
اس سال وومن انٹرنشنل فلم فیسٹیول کے پہلے دن آزاد خواتین فلم سازوں کی بنائی ہوئی سات فلموں کی نمائش ہوئی جن میں پاکستان کی دو فلموں سمیت ایران، میکسیکو، روس، آسٹریلیا اور مصر کی فلمیں شامل تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان فلموں میں دوستی، کھو دینے، رحم دلی اور انسانی رابطوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
میسکیو کی ’لیونگ آل آف لائف‘ میں مرکزی کردار ایک معمر خاتون کا ہے شوہر کے چھوڑ جانے کے بعد زندگی سے بیزار اور تلخ ہوگئی ہیں۔ ایک پرجوش اور خوش رہنے والی ہمسایہ خاتون انہیں واپس زندگی جینا سکھاتی ہیں۔
روسی تھریلر ڈراما ’کو کو‘ پی ایچ ڈی کرنے والی خاتون کی مشکالات کو دکھاتا ہے، جو سائنس سے محبت اور مذہبی والدہ کے مسلسل دباؤ میں کھینچی ہیں، اور اس قدر بنٹ جاتی ہیں کہ اپنے پی ایچ ڈی مکالے کا دفاع کرنے سے عین پہلے ہی سخے میں چلی جاتی ہیں۔
پاکستانی فلم ’ٹیڈی 2.0‘ فاطمہ بٹ کی تخلیق تھی جنہوں نے گذشتہ سال ہی لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی ہے۔
’ٹیڈی 2.0‘ فاطمہ کے تھیسس کا حصہ تھی جس میں انہوں نے اپنے نانا کے چھوٹے بھائی کی زبانی اپنی نانا نانی کی کہانیاں سنیں اور نانا کے بھائی کی جوانی اور رومانس کے قصے سنے۔
فاطمہ کے مطابق یہ اپنے خاندان کی تاریخ اور یادوں کو محفوظ کرنے کا ان کا طریقہ تھا۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ زیادہ تر بیرون ملک رہی ہیں تو اپنے نانا نانی کے ساتھ اتنا وقت نہیں گزار سکیں لیکن ان کی یادیں ساتھ تھیں جنہیں وہ اپنے گھر کے بزرگ اور نانا کے بھائی کے زبانی بھی سننا چاہتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس فیسٹیول کا حصہ ہونا ان کے لیے خوشی اور فخر کی بات ہے اور آنے والے سالوں میں اس فیسٹیول اور مزید وسیع ہوتا دیکھنا چاہیں گی۔
فلمی میلے کا دوسرا اور آخری دن ہفتے کو ہے جس میں پاکستان، بھارت، اسٹونیا، فرانس اور ڈینمارک کی فلم سازوں کی فلموں کی نمائش ہوگی۔