پنجاب میں فی الحال لوکل باڈی بل پاس کرانا ممکن نہیں: پی ٹی آئی

پنجاب حکومت نے 29 مئی کو طے بلدیاتی انتخابات کے لیے ایک قانون پاس کرانا ہے لیکن حکمراں جماعت کی ترجمان کے مطابق فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

25 جولائی، 2018 کو راولپنڈی میں پولنگ سٹاف عوام کو ووٹ کاسٹ کرنے میں مدد کر رہا ہے (اےا یف پی فائل)

گذشتہ کچھ ہفتوں سے وفاق میں سیاسی ہلچل اور متحدہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ممکنہ اثرات پنجاب میں بلدیاتی الیکشن پر پڑ سکتے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے 29 مئی کو صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا اعلان کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔

ان اضلاع میں ڈیرہ غازی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، لیّہ، خانیوال، وہاڑی ، بہاولپور، ساہیوال، پاک پتن، ٹوبہ ٹیک سنگھ، خوشاب، سیالکوٹ، گجرات، حافظ آباد، منڈی بہاؤالدین، جہلم اور اٹک شامل ہیں۔ 

تاہم اس سے قبل صوبائی حکومت نے مقامی حکومتوں کے نظام اور انتخابات کے طریقہ کار میں تبدیلی سے متعلق ایک بل پنجاب اسمبلی سے پاس کرانا تھا۔

اس بل پر اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق کے سینیئر رہنما اور سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کے علاوہ صوبے میں اپوزیشن جماعتوں کو اعتراض تھا۔

اس کے علاوہ چیف سیکریٹری پنجاب اور صوبائی الیکشن کمیشن کو نئی حلقہ بندیوں کی ہدایت کی گئی تھی جس پر تاحال عمل نہیں ہو سکا ہے۔

ترجمان پاکستان تحریک انصاف پنجاب مسرت جمشید چیمہ کے بقول اس تمام صورتحال میں لوکل باڈی بل پاس کرانا مشکل ہے کیوں کہ اس پر اتحادیوں اور اپوزیشن کے تحفظات تھے جنہیں دور کیے بغیر اسے ٹیبل نہیں کیا جا سکتا۔ ’دوسرا یہ کہ موجودہ سیاسی فضا میں اس بل کا پاس ہونا ممکن نہیں۔‘

پنجاب میں سابقہ بلدیاتی سیٹ اپ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے پرغیر فعال ہوگیا تھا۔

تاہم کچھ عرصہ پہلے یہ سیٹ اپ سپریم کورٹ کے حکم پر بحال تو ہوا لیکن اس کی مدت ختم ہو گئی۔

مسرت جمشید چیمہ نے بتایا: ’ہماری حکومت نے نئے طریقہ کار کے تحت بلدیاتی الیکشن کرانے کا مسودہ تیار کر لیا تھا اور وہ اسمبلی میں پیش ہونا تھا مگر اس بل کی کئی شقوں، جیسے براہ راست الیکشن اور میئرز کے اختیارات سے متعلق، ہمارے اتحادی چوہدری پرویز الہیٰ اور پاکستان مسلم لیگ ن نے اعتراضات کیے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ اعتراضات دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جلد ہی ترمیم شدہ مسودہ تیار ہوجائے گا۔

ان کے بقول موجودہ سیاسی صورتحال میں یہ بل فوری اسمبلی میں پیش کرنا مشکل ہے جیسے ہی یہ سیاسی ہلچل ختم ہوگی بل پاس کرا لیا جائے گا اور مقررہ وقت پر بلدیاتی انتخاب کرانے کی کوشش کی جائے گی۔

پنجاب اسمبلی کور کرنے والے صحافی بابر ڈوگر کے مطابق وفاق میں تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ہی پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی تبدیلی کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ ’ان حالات میں اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی تو کیا حکومتی جماعت پی ٹی آئی اور ق لیگ کی بھی کوئی توجہ نہیں کہ بلدیاتی انتخابات ہونے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی انتظامیہ بھی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے کہ آئندہ کیا ہو سکتا ہے۔

’ایسے میں 29 مئی کو بلدیاتی انتخابات ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ اگر حکومت تبدیل ہوگئی تو پھر شاید عام انتخابات کے بعد ہی نئے قانون کے تحت بلدیاتی الیکشن ہوسکیں۔‘

مسرت چیمہ کے بقول سیاسی صورتحال سنجیدہ ہوچکی ہے اس لیے پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ ’ہماری جماعت حکومت میں ہونے کی وجہ سے ان مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔‘

انہوں نے امید ظاہر کی کہ جلد ہی یہ تحریک اعتماد والا معاملہ حل ہوجائے گا اور پھر حکومت بلدیاتی انتخابات کو مقررہ وقت پر کرانے کی ذمہ داری ادا کرسکے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست