امریکی اور چینی صدر میں رابطہ: ’جنگ کسی کے مفاد میں نہیں‘

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ ’جو بائیڈن یہ ضرور واضح کریں گے کہ روس کی جارحیت کی حمایت کے لیے کیےجانے والے کسی بھی اقدام کی ذمہ داری چین پر ہوگی اور ہم قیمت عائد کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔‘

چار دسمبر 2013 کی اس تصویر میں چینی صدر شی جن پنگ اس وقت کے امریکی نائب صدر جو بائیڈن کا گریٹ ہال آف پیپل بیجنگ میں استقبال کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور چینی رہنما شی جن پنگ کے درمیان جمعے کو ٹیلی فونک گفتگو ہوئی ہے جس میں صدر بائیڈن نے اپنے چینی ہم منصب پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین حملے پر روس کے خلاف مغربی دباؤ میں شامل ہوں۔

انہوں نے یہ تبیہ بھی کی ہے کہ اگر بیجنگ نے ماسکو کی مدد کی تو اسے اس کی’ قیمت‘ ادا کرنی پڑے گی۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وائٹ ہاؤس نے بتایا کہ نومبر میں ویڈیو سمٹ کے بعد دونوں رہنماؤں نے یہ کال صبح نو بجکر تین منٹ (امریکی وقت) پر شروع کی۔

جو بائیڈن کے لیے یہ بات چیت ایک موقع ہے جس میں وہ کوشش کریں گے کہ شی جن پنگ روس کو مغربی پابندیوں کے اثرات سے نکالنے یا ہمسایہ ملک یوکرین کے خلاف روس کے حملے کے لیے فوجی امداد بھیجنے کے کسی بھی خیال کو ترک کر دیں۔

امریکہ کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمین نے جمعہ کو سی این این کو بتایا کہ چین کو  ولادی میر پوتن کے خلاف مغربی طاقتوں کا ساتھ دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا :’چین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کا مستقبل امریکہ کے ساتھ ہے، یورپ کے ساتھ ہے، دنیا بھر کے دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ہے۔ ان کا مستقبل ولادی میر پوتن کے ساتھ کھڑا ہونے میں نہیں ہے۔‘

بائیڈن نے یوکرینی افواج کو فوجی حمایت دیتے ہوئے روس کے خلاف سخت مغربی اتحاد کی صف بندی کی ہے۔

لیکن بیجنگ نے اپنے اتحادی کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور امریکہ کو خدشہ ہے کہ چین روس کو مکمل مالی اور فوجی حمایت دے سکتا ہے اور پہلے سے ہی دھماکہ خیز ٹرانس اٹالانٹک کشیدگی کو عالمی تنازعے میں تبدیل کر سکتا ہے۔

اگر ایسا ہوا تو بیجنگ ممکنہ طور پر نہ صرف ولادی میر پوتن کی پابندیوں اور ان کی جنگ جاری رکھنے میں مدد کر سکتا ہے بلکہ مغربی حکومتوں کو بھی اس تکلیف دہ فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت پر کیسے ضرب لگائی جائے جس سے ممکنہ طور پر بین الاقوامی منڈیوں میں ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔

تاہم وائٹ ہاؤس نے اس پر کوئی بات نہیں کی کہ جو بائیڈن نے اپنی کال کے دوران چین کو اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دی ہے یا نہیں۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کا کہنا ہے کہ ’جو بائیڈن یہ ضرور واضح کریں گے کہ روس کی جارحیت کی حمایت کے لیے کیےجانے والے کسی بھی اقدام کی ذمہ داری چین پر ہوگی اور ہم قیمت عائد کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔‘

اعلیٰ امریکی سفارت کار نے زور دیا کہ ’چین کو چاہیے کہ وہ ماسکو کو اس جنگ کے خاتمے پر مجبور کرنے کے لیے جو بھی کرسکتا ہے وہ کرے۔ لیکن تشویش ہے کہ وہ براہ راست فوجی امداد کے ساتھ روس کی مدد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔‘

اے ایف پی کے مطابق چینی سرکاری ٹی وی نے خبر دی ہے کہ:’ شی جن پنگ نے جوبائیڈن سے کہا ہے کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔‘

چین 'ترجیحات متوازن کررہا ہے‘

امریکی صدر جو بائیڈن اور شی جن پنگ کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ اس وقت ہوا ہے جب امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیف ڈپلومیٹ یانگ جیچی نے رواں ہفتے روم میں سات گھنٹے کی’ اہم‘ ملاقات کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے یوکرین پر روسی حملے سے عین قبل، شی جن پنگ اور ولادی میر پوتن نے فروری میں بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس میں ملاقات کے موقع پر علامتی طور پر اپنی قریبی شراکت داری پر مہر لگائی تھی۔

اس کے بعد سے بیجنگ نے اس حملے پر بین الاقوامی تشویش میں شامل ہونے سے انکار کیا اور یورپی کشیدگی کے لیے امریکہ اور نیٹو کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے روسی موقف اپنایا ہے۔

 یہاں تک کہ چینی حکام نے  روس کے بات چیت کے نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حملے کو ’جنگ‘ قرار دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

لیکن چین نے یوکرین کی خودمختاری کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کسی حد تک مبہم رہنے کی کوشش بھی کی ہے۔

صدر باراک اوباما کے چینی امور کے سابق مشیر بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ریان ہیس نے کہا ہے کہ ’بیجنگ کو اپنی متصادم ترجیحات کو حل کرنا ہوگا۔‘

ماسکو کے ساتھ تعاون کے باوجود دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ چین امریکہ اور دیگر مغربی معیشتوں  کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ دنیا میں قائدانہ کردار بھی ادا کرنا چاہتا ہے۔

ریان ہیس نے کہا کہ:’چین اور روس کے مفادات ایک صف میں نہیں ہیں۔ ولادی میر پوتن بین الاقوامی نظام کو جلانے والے ہیں اور صدر شی جن پنگ خود کو بین الاقوامی نظام کی تشکیل نو اور بہتری کے معمار کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ:’صدر شی جن پنگ مسابقتی ترجیحات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ واقعی روس کے ساتھ چین کی شراکت داری کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مغرب اور چین کے تعلقات کو  بھی کمزور نہیں کرنا چاہتے۔ ‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا