یوکرین پر روس کا حملہ: کیا چین بھی تائیوان پر دھاوا بول سکتا ہے؟

مشرقی یورپ میں پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد تائیوان اور یوکرین کے درمیان موازنے کیے جا رہے ہیں۔ تائیوان کے شہری، حکام اور عالمی رہنما یکساں طور پر فکر مند ہیں کہ بیجنگ اس بحران کا فائدہ اٹھا کر جزیرے پر دباؤ بڑھا سکتا ہے یا اس پر حملہ کر سکتا ہے۔

10 اکتوبر  2021 کو تائیوان کے دارالحکومت تائے پے میں قومی دن کے موقع پر ایک فوجی ہیلی کاپٹرسے ملک کاپرچم لہرایا جا رہا ہے(اے ایف پی)

جیسے ہی یوکرین پر روسی حملے کی خبریں سامنے آئیں، مشرقی یورپ سے ہزاروں میل دور تائیوان میں لوگوں نے بڑھتی ہوئی بے چینی کے ساتھ اس پیش رفت کو دیکھا۔

خود مختار جزیرے، جسے چین اپنا حصہ سمجھتا ہے، میں کچھ شہریوں کا ماننا ہے کہ یوکرین میں پیش قدمی جیسی صورت حال تائیوان کے لیے ’بدترین صورت حال‘ ہو سکتی ہے۔

ایک چھوٹا سا جمہوری ملک تائیوان ایک طاقتور اور مطلق العنان حکومت والے ملک چین کا پڑوسی ہے۔ مشرقی یورپ میں پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد تائیوان اور یوکرین کے درمیان موازنے کیے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے تائیوان کے شہری، حکام اور عالمی رہنما یکساں طور پر فکر مند ہیں کہ بیجنگ اس بحران کا فائدہ اٹھا کر جزیرے پر دباؤ بڑھا سکتا ہے یا اس پر حملہ کر سکتا ہے۔  

گفٹ رجسٹری کی ویب سائٹ چلانے والی ایک کاروباری شخصیت کیتھی چینگ نے کہا: ’دنیا یوکرین کے بارے میں جس قسم کا ردِ عمل ظاہر کر رہی ہے مجھے خدشہ ہے کہ دنیا بالکل ویسا ہی ردعمل تائیوان پر (چینی حملے کی صورت میں) ظاہر کرے گی۔ کیا دنیا کو واقعی اس کی پروا ہے؟‘

چین نے حالیہ برسوں میں اس جزیرے کے خلاف ایک دھونس آمیز مہم چلائی ہے، اس کے سفارتی اتحادیوں میں کمی لائی ہے اور اپنے لڑاکا طیاروں کو تائیوان کے ’ایئر ڈیفینس آئیڈینٹیفیکیشن زون (اے ڈی آئی زیڈ) میں بھیجا ہے۔

جمعرات کو یوکرین پر روسی حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی تائیوان کی فضائیہ نے تائیوان کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے نو چینی فوجی طیاروں کو خبردار کرنے کے لیے اپنے جنگی طیارے بھیجے۔

گذشتہ ماہ تائی پے نے اپنی قومی سلامتی کونسل کے تحت یوکرین کا ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا تھا اور صدر تسائی انگ وین نے بدھ کو چین کا براہ راست ذکر کیے بغیر کہا کہ تائیوان کو چاہیے کہ وہ خطے میں فوجی سرگرمیوں پر اپنی نگرانی اور چوکسی بڑھائے۔

ایک جانب تو تائیوان کا کہنا ہے کہ خطے کی صورت حال بنیادی طور پر یوکرین سے مختلف ہے لیکن صدر تسائی نے کیئف کے لیے ’ہمدردی‘ کا اظہار کیا ہے کیونکہ بیجنگ کی طرف سے تائی پے کو فوجی خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

تائیوان کے ایک عہدیدار نے رواں ہفتے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں ولادی میر پوتن اور شی جن پنگ کے فوجی اقدامات میں کچھ مماثلتیں ہیں۔ وہ 2014 میں یوکرین کے کرئمیا خطے کو روس میں ضم کرنے سے پہلے اسے ’گرے زون‘ بنانے کی حکمت عملی کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

تائی پے نے جزیرے کے قریب چین کی متواتر فضائی مشنوں کو اسے ’گرے زون‘ بنانے کا حربہ قرار دیا ہے۔

چین نے یوکرین کے بحران اور تائیوان پر بیجنگ کے دعوے کے درمیان کسی بھی موازنے کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ منظر نامہ ’تائیوان کے تاریخی مسئلے کی بنیاد کو سمجھنے میں قاصر ہونے‘ کو ظاہر کرتا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے رواں ہفتے کہا کہ ’یقیناً تائیوان یوکرین نہیں ہے۔‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا: ’تائیوان ہمیشہ سے چین کی سرزمین کا ایک اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ یہ ایک ناقابل تردید تاریخی اور قانونی حقیقت ہے۔‘

انہوں نے تائی پے اور مغرب پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کو استعمال کرتے ہوئے فوجی خطرے کو ’بڑھا چڑھا‘ کر پیش کر رہے ہیں اور چین مخالف جذبات کو ہوا دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تائیوان میں کہا جا رہا ہے کہ مشرقی یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں کو تسلیم کرنے کے ولادی میر پوتن کے فیصلے کے بعد مغربی ممالک کی طرف سے عائد کردہ تعزیری اقدامات اتنے سخت نہیں تھے کہ مکمل حملے کو روک سکیں۔

اس معاملے کو قریب سے دیکھنے والے انتھونی یانگ نامی پائلٹ نے کہا کہ ’اگر دوسرے ممالک کو یہ احساس ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کی جانب سے عائد اقتصادی پابندیوں کا کچھ اثر نہیں پڑا تو روس، چین اور دیگر ممالک مستقبل میں اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’وہ مغربی ردعمل کی حدوں کو چیلنج کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

امریکہ میں چین کے سفیر کن گینگ کے بیان کہ دونوں ممالک کے درمیان تائیوان کے مستقبل پر فوجی تنازع ہو سکتا ہے پر کافی لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ 

انہوں نے جنوری کے اختتام پر ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’تائیوان کا مسئلہ چین اور امریکہ کے درمیان سب سے بڑا ٹنڈر باکس ہے۔ اگر تائیوان کے حکام، جو امریکہ سے حوصلہ افزائی حاصل کرتے ہیں، آزادی کی راہ پر گامزن رہتے ہیں تو غالباً یہ دو بڑے ممالک یعنی چین اور امریکہ کو فوجی تنازعے میں الجھا دے گا۔‘

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حملے کی صورت میں یوکرین کے مقابلے میں امریکہ کا تائیوان سے زیادہ مضبوط سیکورٹی معاہدہ ہے اور یہ کہ یہ جزیرہ واشنگٹن کے لیے سٹریٹجک لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے تائیوان سٹڈیز پروگرام کے لیکچرر وین ٹی سنگ نے کہا: ’تائیوان امریکہ کے لیے زیادہ قابل دفاع خطہ ہے۔‘

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’عظیم فوجی طاقت پر تشویش کے لحاظ سے چین اب دنیا کا دوسرا سب سے مضبوط ملک ہے، اس لیے فطری طور پر امریکہ کے لیے مشرقی یورپ کے مقابلے میں انڈو پیسیفک خطہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔‘

تائیوان کی تمکانگ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور سٹریٹجک سٹڈیز کے پروفیسر ڈا-جنگ لی کا ماننا ہے کہ اگرچہ امریکہ نے یوکرین میں فوج بھیجنے کے آپشن کو مسترد کر دیا ہے لیکن ’تائیوان ریلیشنز ایکٹ‘ کی بنیاد پر تائی پے کے ساتھ اس کا سٹریٹجک طور پر زیادہ مضبوط سکیورٹی معاہدہ ہے۔

انہوں نے کہا: ’گذشتہ چند سالوں میں امریکہ نے اکثر کہا ہے کہ وہ آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور یہ کہ تائیوان کے ساتھ اس کا عہد چٹان کی طرح مضبوط ہے۔ اگرچہ واشنگٹن کے عزم میں تائیوان کی حفاظت کے لیے فوج بھیجنا شامل نہیں لیکن اس میں لچک دکھائی جا سکتی ہے۔‘

ایک جانب تائیوان یوکرین کے بحران کی روشنی میں چینی جارحیت کے بارے میں کافی فکر مند ہے اور کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بیجنگ جلد ہی تائیوان پر دباؤ بڑھا سکتا ہے۔ لیکن دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی گفتگو قبل از وقت اور گمراہ کن ہے۔

ہارورڈ فیئربینک سینٹر فار چائنا سٹڈیز میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو لیو ناچمن نے کہا: ’چین اسی ہفتے تائیوان کے خلاف غیر معقول طور پر صرف اس لیے فوجی کارروائی کی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘

انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا: ’اگر (چین) تائیوان کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ اب نہیں ہوگا اور اس کے لیے روس کے اقدامات کو استعمال کرنے کا جواز پیش نہیں کیا جائے گا۔‘

تائیوان اس وقت سے چینی حملے کے خطرے سے دوچار ہے جب جمہوریہ چین کی شکست خوردہ حکومت نے 1949 میں کمیونسٹ فورسز سے خانہ جنگی ہارنے کے بعد اس جزیرے پر پناہ لی تھی۔

چین نے تائیوان کے خلاف فوجی مداخلت کے امکان کو کبھی رد نہیں کیا ہے۔

ہفتے کو میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ اگر مغربی ممالک یوکرین کی آزادی کی حمایت کے اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو اس کے تائیوان سمیت دنیا بھر میں تباہ کن نتائج ہوں گے۔

ادھر واشنگٹن میں امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شِف نے جمعرات کو کہا کہ چین (یوکرین جنگ کے تناظر میں) مغربی اقدامات کو قریب سے دیکھ رہا ہے کہ وہ بھی کس طرح تائیوان پر کامیابی سے حملہ کر سکتا ہے۔

وین ٹی سنگ نے کہا: ’اگر روس کو یوکرین پر چڑھائی کرنے کی کوشش پر سزا نہ دی گئی یا کم سزا دی گئی تو آہستہ آہستہ اس سے مغربی بلاک کی ہم آہنگی کمزور پڑ سکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اور ہم جانتے ہیں کہ طویل مدتی تناظر میں متحد مغرب چین کو (تائیوان پر حملہ کرنے سے) روکنے کی امریکی کوششوں کے حوالے سے اہم ثابت ہوگا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا