افغانستان میں نوروز نہیں منائیں گے لیکن پابندی بھی نہیں: طالبان

افغانستان میں نوروز ایک عرصے سے ایک روایتی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی نوروز کو عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

ایک افغان خاندان ہرات کے کھلے  میدان میں 2014میں  جشن نوروز کی پکنک منارہا ہے (اے ایف پی فائل)

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت سرکاری طور پر آج (پیر) کو نوروز نہیں منائے گی کیوں کہ ان کے مطابق وہ ایسی تقریبات نہیں منائیں گے جو اسلام میں نہیں ہیں لیکن وہ لوگوں کو ایسا کرنے سے نہیں روکیں گے۔

انہوں نے یہ بات بی بی سی سے کی ہے۔

ادھر افغانستان کے قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے سہہ رنگی قومی پرچم ہٹا دیا گیا ہے۔ اس سرکاری ادارے کا نیا لوگو، جو اب طالبان کے تحت کام کرتا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ سفید رنگ نے سیاہ، سرخ اور سبز (افغانستان کے قومی پرچم) کی جگہ لے لی ہے۔

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق افغان قومی ریڈیو اور ٹیلی ویژن شو سے افغان قومی پرچم ہٹائے جانے پر افغان عوام میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا کے متعدد صارفین نے طالبان کے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ طالبان افغانستان کے اندر اس گروپ کی علامت سفید جھنڈا استعمال کرتے ہیں لیکن افغانستان سے باہر لوگ اپنا رنگین افغان پرچم ہی استعمال کرتے ہیں۔

افغانستان میں نوروز ایک عرصے سے ایک روایتی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی نوروز کو عالمی ثقافتی ورثہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی نوروز کے موقع پر فارسی زبان میں بیان جاری کیا ہے۔

 

بعض سابق سرکاری ملازمین اور اہلکاروں سمیت متعدد افغان شہریوں نے سرکاری میڈیا سے قومی پرچم ہٹائے جانے کے خلاف احتجاجاً اپنے فیس بک اور ٹوئٹر اکاؤنٹس پر افغان قومی پرچم پوسٹ کیا اور کہا کہ کسی تحریک کا جھنڈا کبھی بھی پرچم کی جگہ نہیں لے سکتا۔

طالبان نے اپنے پہلے دور حکومت میں نوروز منانے پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ مزار شریف کے کچھ رہائشیوں نے گذشتہ سالوں کی طرح نوروز کو سرکاری طور پر منانے کا مطالبہ کیا ہے۔

گذشتہ دو دہائیوں سے مزار شریف میں نوروز ہر سال منایا جا رہا ہے اور اس روز سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔

مقامی روایت کے مطابق لوگ شہر کے مضافات میں کھلی جگہوں پر جاتے ہیں جہاں پھول کھلے ہوں اور یوں بہار کی آمد کا جشن مناتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس سال انہوں نے سرکاری طور پر نوروز کے جشن پر پابندی نہیں لگائی ہے، لیکن طالبان کی وزارتِ امر بالمعروف و نهی المنکر کے بعض اہلکاروں نے اس جشن کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیا ہے۔ اس سال جشن منانے کی کوئی سرکاری تیاری نہیں کی گئی ہے۔

گذشتہ سالوں کے میں نوروز کی تقریبات کے دوران مزار شریف، کابل اور کچھ دوسرے صوبوں میں کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد ہوتے تھے، جن میں لوگوں کی بڑی تعداد شرکت کیا کرتی تھی۔

مزار شریف سے ملنے والی کچھ اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ بلدیہ اور عوام نے مزار شریف شہر کو صاف کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی نہیں جانتا کہ پیر 21 مارچ کا دن کیسا ہوگا۔

پچھلے سال تک مزار شریف شہر کو نوروز اور اس کے مہمانوں کے استقبال کے لیے پھولوں اور روشنیوں سے سجایا جاتا تھا اور اس کا ایک خاص حسن تھا۔ شہر کے لوگ اکثر مہمان نواز ہیں لیکن اس سال جوش اور جلال کے بارے میں زیادہ خبریں نہیں ہیں۔ طالبان نوروز کو منع کرتے ہیں لیکن لوگ جشن منانے پر اصرار کرتے رہتے ہیں۔

مزار شریف کے ایک رہائشی امیر جان رسا نے دی فارسی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ نوروز افغانستان کی سب سے اہم ثقافتی اور تاریخی علامتوں میں سے ایک ہے اور یہ جشن ماضی کی طرح شاندار ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا، ’ہم امارت اسلامیہ [طالبان کی] سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ نوروز کو گذشتہ سالوں کی طرح شاندار طریقے سے منائیں، تاکہ دنیا کے سامنے افغانستان کا ایک مثبت اور مختلف امیج پیش کیا جا سکے۔‘

ایک دوسرے افغان عنایت اللہ رفیق نے کہا، ’نوروز لوگوں میں ایک دیرینہ روایت ہے اور کسی کو اسے منانے سے نہیں روکنا چاہیے۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ نوروز حرام ہے اور میں نے تو لوگوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ اگر کوئی شخص نوروز پر نئے کپڑے پہنتا ہے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔‘"

مزار شریف کے ایک رہائشی محمد عارف کا کہنا ہے کہ نوروز کی تقریبات پر پابندی لگانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

سابق صدر حامد کرزئی نے شمسی سال کے آغاز پر مبارک باد جاری کی جس میں انہوں نے شہریوں سے اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کو سکول بھیجنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ افغانوں کے درمیان مضبوط اتحاد قائم ہو۔

اس تہوار کو منانے کے لیے کابل شہر کے مغربی حصے میں بہت سے لوگ جمع ہوئے لیکن شرکا کی تعداد گذشتہ برسوں کے مقابلے میں کافی کم تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سال بڑی تعداد میں افغان خاندان دنیا کے چاروں کونوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ملک کے اندر بہت سے لوگ معاشی مشکلات اور غیریقینی مستقبل کا دباؤ محسوس کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں لگتا کہ جشن منانے کے لیے ان کے پاس بہت کچھ ہے۔ لیکن نوروز سوچنے اور امید کا وقت ہے۔

گذشتہ دو سالوں میں کرونا (کورونا) وبا کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے نوروز کی تقریبات میں شرکت نہیں کی تھی۔

فارسی کی جگہ پشتو

انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق طالبان نے اس سے قبل افغان یونیورسٹی کے بورڈز سے فارسی الفاظ کو ہٹا کر ان کی جگہ پشتو اور انگریزی الفاظ لگا دیے تھے۔ طالبان کے اس اقدام پر بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہوا، لیکن طالبان کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے یہ کہہ کر ردعمل ظاہر کیا کہ یہ اقدام قانون کے مطابق ہے۔

طالبان کی وزارت اعلیٰ تعلیم نے اس قانون کا حوالہ دیا کیوں کہ انہوں نے سابق ​​افغان حکومت کے خاتمے کے بعد آئین کو منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد طالبان کے ابتدائی احکامات کے علاوہ افغانستان میں کوئی قانون تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

جنوری کے اوائل میں طالبان نے افغان شہروں میں تمام دکانداروں کو حکم دیا کہ وہ نمائشی پتلوں کے سر ہٹا دیں اور ان کے اعضا ڈھانپ لیں۔ اس حکم کے بعد دکانداروں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی مصنوعات کی نمائش کے لیے خریدے گئے پتلوں کو ہٹا دیں یا ڈھانپ دیں۔

طالبان کے عہدیداروں نے پتلوں کے سر کاٹنے کے اپنے حکم کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے معاشرے میں جسم فروشی کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے گا۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے سات مہینوں میں، متعدد مواقع پر، افراد کو اپنی گاڑیوں یا دکانوں کے سامنے افغان قومی پرچم رکھنے پر جرمانے یا تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا