بلوچستان کی پہلی خاتون ترجمان کون ہیں؟

بلوچستان کی پہلی خاتون ترجمان فرح عظیم شاہ کہتی ہیں کہ مشکلات ہر کسی کی زندگی میں ہوتی ہیں مگر بہ حیثیت خاتون مردوں کے معاشرے میں مشکلات زیادہ درپیش ہوتی ہیں۔

بلوچستان کی پہلی خاتون ترجمان فرح عظیم شاہ2002  سے2007 کے دوران خواتین کے لیے مخصوص نشست پر بلوچستان اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں (تصویر: فرح عظیم شاہ/ ٹوئٹر)

’میں کچھ نیا کرنا چاہتی تھی لیکن میری والدہ کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں جس کے لیے میں نے ٹیسٹ بھی دیا اور بولان میڈیکل کالج میں داخلہ بھی ہوگیا۔ پھراس کے بعد میرا راستہ تبدیل ہوگیا اور سماجی کاموں کے ساتھ ساتھ سیاست میں حصہ لے لیا جو اب تک جاری ہے۔‘

یہ کہانی ہے بلوچستان کی پہلے خاتون ترجمان فرح عظیم شاہ کی جن کا تعلق بلوچستان کے قدیم ضلع قلات سے ہے۔

بلوچستان کی پہلی خاتون ترجمان فرح عظیم شاہ ایمان ٹرسٹ پاکستان اور گلوبل پیس کی بانی بھی ہیں۔ وہ پیمرا اتھارٹی کی ممبر بھی ہیں اور سماجی خدمات کے حوالے سے نمایاں نام رکھتی ہیں۔

فرح عظیم شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ان کی والدہ کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا لیکن نویں جماعت پاس کرنے کے بعد ان کی شادی ہوگئی اور ان کا یہ خواب ادھورا رہ گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان والدہ نے پھر اپنا یہ خواب اپنے بچوں کو تعلیم دلا کر پورا کیا۔

’یہی وجہ ہے کہ ہماری فیملی میں سب پڑھے لکھے ہیں۔ خاندان میں ڈاکٹر اور انجینیئر تو ہیں مگر کوئی سیاستدان نہیں ہے۔‘

فرح کہتی ہیں کہ ’میرا شوق تھا اور خواب تھا کہ میں کچھ نیا الگ کروں۔ اسی وجہ سے میرا رخ ڈاکٹری شعبے سے ہٹ کر پہلے سماجی کاموں اور پھر سیاست کی طرف ہو گیا۔‘

’میں 2002 سے2007 کے دوران خواتین کے لیے مخصوص نشست پر بلوچستان اسمبلی کی ممبر رہی۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ مشکلات ہر کسی کی زندگی میں ہوتی ہیں۔ بہ حیثیت خاتون مردوں کے معاشرے میں مشکلات زیادہ درپیش ہوتی ہیں۔ 

’اگر کوئی خاتون اپنے کیریکٹر اور وقار پر سمجھوتہ نہ کرے تو اسے مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مشکلات سے لڑنا میرے لیے بڑی بات نہیں ہے۔ اگر آپ کے سامنے مشکلات نہ ہوں تو شاید کامیابی بھی نہ ملے۔‘

فرح عظیم شاہ ایمان ٹرسٹ اور انسٹیوٹ آف گلوبل پیس کی بھی بانی ہیں، جو دس ممالک میں کام کرتی ہے اور اس کا مقصد اقوام کے درمیان پل کا کام کرنا ہے۔ یہ ایک تھنک ٹینک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہمارا مقصد دنیا میں امن کے پیغام کو پھیلانا ہے کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کشمیر، فلسطین، عراق اور شام سمیت دیگر ممالک میں طاقت کے استعمال سے مسائل بڑھے ہیں، کم نہیں ہوئے۔ معصوم لوگوں کی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔‘

فرح کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ یورپی یونین کی پارلیمان اور پرتگال کے پارلیمنٹریئنز سے مل چکی ہے اور ان کی پارلیمںٹ میں خطاب بھی کرچکی ہیں۔

ممبر اسمبلی بننے کے بعد منظر سے غائب کیوں رہیں؟

فرح عظیم شاہ 2002 سے 2007 تک ممبر اسمبلی رہیں اور اس کے بعد وہ سیاست کے منظر سے اچانک غائب ہو گئیں۔

ان سے اس حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’غائب نہیں تھی بلکہ سرگرمیاں جاری تھیں۔ یہ سوچ غلط ہے کہ جو سیاستدان پارلیمنٹ میں ہوگا وہی قوم کی خدمت کرسکتا ہے۔ اصل تو وہ ہے جو پارلیمنٹ کے باہر بھی قوم اور ملک کی خدمت کرے۔‘

فرح فلاحی کاموں اور سیاسی جہدوجہد کے علوہ اب تک دو کتابیں بھی لکھ چکی ہیں۔ ایک انگریزی میں ’رائز بلوچستان‘ اور دوسری عمان کے سلطان قابوس کے حوالے سے ہے۔

فرح کہتی ہیں کہ ’سلطان قابوس سے میں اس طرح متاثر ہوئی کہ انہوں نے جب اقتدار سنبھالا تو ان کے بہت سے مخالفین تھے۔‘

’سلطان قابوس نے یہ کام کیا کہ پہلے ان مخالفین کے علاقوں میں ترقیاتی کام شروع کیے جس کی وجہ سے ان کی مخالفت ختم ہوگئی۔‘

فرح نے بتایا کہ سلطان قابوس پر کتاب لکھنے کے بعد مجھے وہاں بہ حیثیت سرکاری مہمان مدعو کیا گیا۔ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ اس تقریب میں دنیا بھر سے 8 لکھاری مدعو کیے گئے تھے۔ پاکستان سے میں نے نمائندگی کی تھی۔

ان کے خیال میں بلوچستان کا مسئلہ بھی معاشی ہے اور جو وسائل ہیں ان کو یہاں کے عوام کے فلاح پر خرچ کیا جائے تو یہاں خوشحالی آسکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اگر ہم دیکھیں تو بلوچستان حکومت نے جو ریکوڈک کا معاہدہ کیا اس کے ذریعے صوبے کو 33 فیصد حصہ ملے گا۔‘

ادھر سابقہ ترجمان بلوچستان حکومت لیاقت شاہوانی سے اس عہدے کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں پر تمام ذمہ داری ترجمان اور وزیراعلیٰ کے کندھوں پر ہوتی ہے۔

سابق ترجمان کا تجربہ کیسا رہا؟

لیاقت شاہوانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ترجمان بننا مشکل کام ہے کیوں کہ یہ ذمہ داری کا کام ہے اور بلوچستان میں وزرا اور عہدیدار میڈیا سے مختلف وجوہات کی بنا پر دور رہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ترجمان کو صبح نو بجے سے رات 12 تک الیکٹرانک میڈیا اور ساتھ ساتھ سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا کو بھی اپ ڈیٹ رکھنے کے علاوہ صحافیوں کے لیے بھی دستیاب رہنا پڑتا ہے۔

لیاقت شاہوانی کہتے ہیں کہ ’ہر وزیر صرف اپنے محکمے سے متعلق اپ ڈیٹ رہتا ہے لیکن میں تمام محکموں، اپوزیشن اور وفاقی حکومت کے معاملات کے متعلق اپ ڈیٹ رہتا تھا۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے بڑا چیلنج بلوچستان میں بغیر بجٹ کے صرف چھوٹی سی تنخواہ پر کام کرنا ہے۔ ’میں نے ڈھائی سال زیرو بجٹ پر کام کیا۔‘

’دوسرا یہ کہ بلوچستان الیکٹرانک میڈیا کے لیے اہمیت نہیں رکھتا، بلوچستان کے معاملات نہ الیکٹرانک میڈیا پر آتے ہیں اور نہ ہی ٹاک شوز میں ڈسکس ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میں چونکہ سال سال اسلام آباد میں بطور سیاسی تجزیہ کار کام کرچکا تھا تو میڈیا کے ساتھ تعلقات و تجربہ بھی تھا، اس لیے میں میڈیا کے ساتھ شامل رہا۔

’مجھ سے قبل بلوچستان کی تاریخ میں کسی ترجمان یا وزیر اطلاعات کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین