جراثیم کش ’نئی روشنی‘ جو اگلی وبا سے بچا سکتی ہے: سائنس دان

اس ٹیکنالوجی کو ’فار۔ یو وی سی روشنی‘ کا نام دیا گیا ہے اور محققین کے مطابق یہ روشنی کمرے جتنی جگہ پر ہوا کے ذریعے پھیلنے والے جراثیم کو مؤثر طور پر غیر فعال کر دیتی ہے۔

روشنی تیار کرنے والے محققین کے مطابق یہ انسانوں کے لیے خطرناک نہیں ہے اور اس نے کمرے میں موجود ہوا سے پھیلنے والے جراثیم کو 98 تک کم کرنے میں پانچ منٹ سے کم وقت لیا (پیکسیلز)

محققین کا کہنا ہے کہ ایک نئی قسم کی (بالائے بنفشی) الٹرا وائلٹ روشنی تقریباً تمام جراثیم ختم کر دیتی ہے اور اگلی وبا سے بچنے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔

روشنی تیار کرنے والے محققین کے مطابق یہ انسانوں کے لیے خطرناک نہیں ہے اور اس نے کمرے میں موجود ہوا سے پھیلنے والے جراثیم کو 98 تک کم کرنے میں پانچ منٹ سے کم وقت لیا۔

اس طرح ایسی روشنیوں کو چھت پر لگایا جا سکتا ہے اور یہ ہوا کو صاف کرنے اور کووڈ 19 اور فلو جیسی بیماریوں کو پھیلنے سے روک دیتی ہیں اور مستقبل میں ایسی وباؤں سے بچنے میں مدد دے سکتی ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی ویگالوس کالج آف فریشنز اینڈ سرجنز میں ریڈیولوجیکل تحقیق کے مرکز کے ڈائریکٹر اور تحقیق کے شریک مصنف ڈیوڈ برینر کے بقول: ’فار – یو وی سی (الٹراوائلٹ روشنی کا نام) کمرے کی ہوا میں موجود فعال جراثیم کو تقریباً صفر کر دیتی ہے۔ کمرے کی ہوا لازمی طور پر اتنی ہی محفوظ ہو جاتی ہے جتنی کھلی جگہ کی ہوا۔ ایسے مقامات جہاں لوگ اکٹھے ہوئے ہیں وہاں اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اگلی ممکنہ وبا کو روکا جا سکتا ہے۔‘

اس ٹیکنالوجی کو ’فار۔ یو وی سی روشنی‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کے بارے میں ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے۔

’سائنٹفک رپورٹس‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ’فار۔ یو وی سی (222 این ایم) کمرے جتنی جگہ پر ہوا کے ذریعے پھیلنے والے جراثیم کو مؤثر طور پر غیر فعال کر دیتی ہے۔

ڈاکٹر برینر نے ایک بیان میں کہا: ’فار۔ یو وی سی کو نصب کرنا آسان ہے۔ یہ سستی ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ کرونا وائرس اور اس کی مختلف اقسام سمیت انفلوئنزا اور ممکنہ طور پر مستقبل میں وبا کا سبب بننے والے وائرسز کو پھیلنے سے روکنے کا محفوظ طریقہ ہے۔‘

اسی طرح کی ایک روشنی یو وی سی کو کئی دہائیوں سے ہوا صاف کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ روشنی بعض مخصوص حالات میں جراثیم جیسے کہ بیکٹیریا اور وائرسز کو ختم کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، لیکن کمرے کے اندر اس کا استعمال محفوظ نہیں ہے جہاں لوگ اکٹھے ہوں کیوں کہ یہ لوگوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے اور ان کی جِلد اور آنکھوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم حال ہی میں محققین فار۔ یو وی سی روشنی کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں جو ہوا سے پھیلنے والے جراثیم کو تباہ کرنے کے لیے اسی طرح مؤثر ہے لیکن اس سے ان لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، خواہ وہ اس روشنی کے استعمال والے مقامات پر موجود ہوں۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ روشنی زیادہ طاقتور نہیں ہے، اس لیے لوگوں کی جلد اور آنکھوں کے خلیوں میں داخل نہیں ہو سکتی، لیکن یہ بیکٹیریا اور وائرسز کو ان کے چھوٹے جسم کے مد نظر ختم کرنے میں اچھی ہے۔

حالیہ برسوں میں، سائنس دانوں نے نسبتاً چھوٹے تجربات میں فار۔ یو وی سی کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اسے تجرباتی چیمبروں میں استعمال کیا گیا تا کہ دیکھا جائے کہ وہ جراثیم اور لوگوں دونوں پر کس طرح اثر کرے گی۔ پہلی بار نئی تحقیق میں اسے بڑے کمروں میں استعمال کیا گیا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ اصل کمروں میں حقیقت میں یہ روشنی کس طرح استعمال کی جائے گی۔

ایسا کرنے کے لیے سائنس دانوں نے کمرے جتنا ایک چیمبر استعمال کیا اور اسے  تقریباً اتنی اچھی طرح ہوادار بنا دیا جتنا ایک عام گھر یا دفتر ہوتا ہے۔ کمرے کی ہوا کو ایک گھنٹے میں تقریباً تین بار تبدیل کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کمرے میں بیکٹیریا داخل کر دیے اور فار۔ یو وی سی کے لیمپ روشن کر دیے۔

ہوا سے پھیلنے والے جراثیم پانچ منٹ کے اندر غیرفعال ہو گئے۔ حتیٰ کہ جب کمرے میں نئے جراثیم کا چھڑکاؤ کیا گیا تو جراثیم کی محفوظ سطح قائم رہی۔ صفائی کا اثر کمرے میں ایک گھنٹے میں 184 بار ہوا تبدیل کرنے کے مساوی تھا۔ عام طور پر بہترین انداز میں صرف تقریباً 20 مرتبہ کے مساوی ہوا تبدیل کرنا ممکن ہے۔

یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز میں سکول آف فزکس اینڈ ایسٹرونومی کے لیکچرار اور تحقیق کے سینیئر مصنف کنیتھ وڈ کے مطابق: ’ہمارے تجربات کے شاندار نتائج برآمد ہوئے ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر جو صرف ہوادار بنانے کے عمل سے ممکن ہے۔ بیماری کے ہوا کے ذریعے پھیلنے کے معاملے میں فار۔ یو وی سی روشنیاں بند جگہوں کو اتنا ہی محفوظ بنا سکتی ہیں جتنا اس دن باہر سینٹ اینڈریوز کے گالف کورس پر موجود ہونا، جب ہوا چل رہی ہو۔‘

محققین نے دیکھا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کارآمد ہے کیوں کہ وہ وائرسز کے تبدیل ہونے پر بھی کام کرے گی۔ مثال کے طور پر یہ مستقبل میں کرونا وائرس کی مختلف اقسام پر بھی کام کرے گی۔ ساتھ ہی دیگر بیماریوں پر بھی جن کی شناخت ہونا باقی ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ جراثیم وقت گزرنے کے ساتھ اس طرح مزاحمت کی صلاحیت حاصل نہیں کر پائیں گے، جس طرح وہ ویکسینز یا ادویات کے مقابلے میں کرتے ہیں۔


نوٹ: بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  

ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس