وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور وزیراعلیٰ پنجاب کا استعفیٰ

پاکستان میں پیر کو ایک بار پھر سے سیاسی ہلچل عروج پر رہی جس کا آغاز وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے ہوا اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد سے ہوتے ہوئے اختتام بھی وزیراعلیٰ پنجاب ہی کے استعفے پر ہوا۔

وزیراعظم عمران خان اور  وزیراعلیٰ پنجاب ایک تقریب کے دوران موجود ہیں( فائل فوٹو: عثمان بزدار/ فیس بک)

پاکستان میں پیر کو ایک بار پھر سے سیاسی ہلچل عروج پر رہی جس کا آغاز وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے ہوا اور قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد سے ہوتے ہوئے اختتام بھی وزیراعلیٰ پنجاب ہی کے استعفے پر ہوا۔

قومی اسمبلی میں پیر کو ہونے والے اہم اجلاس میں متحدہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس جمعرات تک ملتوی کر دیا۔

اجلاس تاخیر سے شروع ہوا اور جلد ہی 31 مارچ کی شام تک ملتوی بھی کر دیا گیا۔ اس مختصر دورانیے میں قائد حزب اختلاف نے قرارداد پیش کرنے کی اجازت طلب کی اور اس کے بعد ایوان میں گنتی کا عمل شروع ہوا۔

اس موقع پر ایوان میں 161 ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر قرارداد کی منظوری دی جس کے فوراً بعد ہی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد پر مزید بحث کے لیے اجلاس جمعرات تک ملتوی کر دیا۔

بظاہر قومی اسمبلی میں یہ سب بڑے پرسکون انداز میں ہو گیا لیکن اسمبلی سے باہر اصل ’سرپرائز‘ دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔

سب سے پہلے تو مسلم لیگ ن سینیئر رہنما رانا ثنا اللہ نے قومی اسمبلی سے باہر آتے ہی کہا کہ ’ہمارے نمبر پورے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں 161 ارکان موجود تھے جبکہ علی وزیر جیل میں ہیں اور جام کریم ملک سے باہر ہیں جنہیں شامل کر کے اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 163 ہو جائے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار مونا خان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتحادیوں کے ساتھ بھی بات چیت کا عمل مکمل ہو چکا ہے جو آئندہ چند روز میں اعلان کر دیا جائے گا۔

مگر ان کے اعلان کرنے سے قبل ہی پاکستان تحریک انصاف نے ’سرپرائز‘ دیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ مسلم لیگ ق تحریک عدم اعتماد میں حکومت کا ساتھ دے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے بتایا کہ مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الہی سے وزیراعظم عمران خان کی ملاقات ہوئی ہے جس میں ’تمام معاملات‘ طے پا گئے ہیں۔

تاہم اصل خبر اس میں یہ تھی کہ فرخ حبیب کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو پیش کر دیا ہے اور وزیراعظم نے پرویز الہی کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس خبر کے بعد ذرائع ابلاغ پر یک دم ہلچل مچ گئی اور یہ کہا جانے لگا کہ وزیراعظم عمران خان چند دنوں سے جس سرپرائز کا ذکر کر رہے تھے شاید وہ یہی تھا۔

لیکن یہ خبر بھی زیادہ دیر ’بڑی خبر‘ نہ رہی کیونکہ چند ہی لمحوں بعد ذرائع کے حوالے سے خبر آنے لگی کے بلوچستان عوام پارٹی (باپ) نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔

پھر اچانک سے ہی متحدہ اپوزیشن کے قائدین ٹی وی سکرینز پر نمودار ہوئے جہاں ان کے ہمراہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان بھی دکھائی دیے جس سے صورتحال مزید واضح ہو گئی۔

اسلام آباد میں پیر کی شام متحدہ اپوزیشن کے قائدین جن میں شہباز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن شامل ہیں نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ بلوچستان عوام پارٹی کے چار اراکینِ پارلیمان نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

واضح رہے کہ بی اے پی کے کل پانچ ارکانِ پارلیمان میں سے چار نے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔

مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران شہباز شریف نے کہا کہ ’ہم اس فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی توقعات پر پورا اتریں گے۔‘

اس موقع پر وہیں موجود بلوچستان عوامی پارٹی ’باپ‘ کے رکن خالد مگسی نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساتھیوں کے ساتھ مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’متحدہ اپوزیشن گذشتہ تجربات کے بعد کے ایک نئے ارادے کے ساتھ آئی ہے اس لیے ان کی دعوت کو قبول کیا۔‘

سیاسی جوڑ توڑ اور رسہ کشی کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا ہے کیونکہ حکومتی اراکین اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان بھی ایک ملاقات ہوئی ہے اور اس وقت سب کی نظریں ایم کیو ایم پاکستان پر ہی ہیں کہ اس موقع پر وہ کیا فیصلہ کرتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست