ایک نئی تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ سپائیڈر نسل کے بندر عام طور پر اتنا پکا ہوا پھل تلاش کرتے ہیں کہ جس میں الکوحل موجود ہو۔ ان کے اس عمل سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ انسانوں کو ’شراب پینے کا شوق حیاتیاتی آباؤ اجداد سے ورثے میں ملا۔‘
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلی کے ماہر حیاتیات پروفیسر رابرٹ ڈڈلی نے 2014 میں ’شرابی بندروں‘ کا مفروضہ پیش کیا جس کے مطابق ہمارے لیے شراب میں موجود کشش کی تاریخ لاکھوں سال پرانی ہے جب بندروں کو پتہ چلا کہ شراب کی بو انہیں پکے ہوئے، خمیر والے اور غذایئت سے بھرپور پھلوں کی طرف لے گئی۔
لیکن پروفیسر ڈڈلی کے مفروضے کی بنیاد اس علم پر تھی کہ بعض پھل جنہیں بندر کھاتے تھے ان میں الکوحل کی مقدار سات فیصد تھی۔ وہ ایسا کوئی ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہے کہ آیا بندروں اور بن مانسوں نے واقعی ایسے پھل تلاش کیے جن میں خمیر پیدا ہو چکا تھا یا وہ الکوحل ہضم کر لیتے تھے۔
اب نئی تحقیق کی بدولت سائنس دانوں نے وہ پھل اکٹھے کیے ہیں جنہیں سیاہ ہاتھوں والے سپائیڈر کے نسل کے بندروں نے کھایا یا پھینک دیا۔ اس طرح سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ بندروں نے واقعی ایسے پھلوں کو ترجیح دی جن میں شراب موجود تھی۔
محققین کے علم میں آیا کہ جوبو نامی پھل جو انسان ہزاروں سال تک چیکا نامی شراب بنانے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں، سپائیڈر بندروں نے اسے سونگھا اور کاٹا۔ اس میں عام طور پر ایک اور دو فیصد کے درمیان الکوحل موجود تھی۔
سائنس دانوں نے چھ سپائیڈر بندروں کے پیشاب کے نمونے بھی لیے اور ان میں سے پانچ میں شراب پائی گئی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بجائے اس کے کہ شراب محض ان کے جسم سے ہوتی ہوئی نکل جائے وہ دراصل اسے توانائی کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
تحقیق کی سرکردہ مصنف اور کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی نارتھ ریج میں قدیم جانوروں کی ماہر ڈاکٹر کرسٹینا کیمبل کے مطابق: ’پہلی بار کسی شک و شبہے کے بغیر ہم یہ دکھانے کے قابل ہوئے ہیں کہ جنگلی بندر، انسانی مداخلت کے بغیر، وہ پھل کھاتے ہیں جن میں شراب ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ محض ایک تحقیق ہے اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس میں کچھ حقیقت ہو سکتی ہے کہ ’شرابی بندروں‘ کا مفروضہ درست ہے۔ انسانوں میں شراب نوشی کے رجحان کی بنیاد (پھل کھانے والے بندروں) کے ساتھ گہرے تعلق پر ہے جو پکے ہوئے پھلوں میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والی شراب استعمال کرتے تھے۔‘
رواں ماہ رائل سوسائٹی اوپن سائنس جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر ڈڈلی نے اسے ’شرابی بندروں‘ کے مفروضے کی براہ راست جانچ قرار دیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں: ’پہلی بات یہ ہے کہ جو خوراک وہ (بندر) کھا رہے ہیں اس میں شراب پائی جاتی ہے اور وہ بہت زیادہ پھل کھاتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ دراصل وہ الکوحل کو جزو بدن بنا رہے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کتنی مقدار میں پھل کھاتے ہیں اور ان کے رویے اور جسم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن یہ پکی بات ہے کہ وہ یہ پھل کھاتے ہیں۔‘
پروفیسر ڈڈلی کا کہنا تھا کہ سپائیڈر بندروں کے معاملے میں ’ہو سکتا ہے کہ وہ نشے میں نہ آتے ہوں جس کی وجہ یہ ہے کہ نشے کی سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی ان کا پیٹ بھر جاتا ہو لیکن الکوحل انہیں کچھ جسمانی فائدہ پہنچاتی ہے۔‘
پروفیسر ڈڈلی نے مزید کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ’جو خوراک وہ استعمال کرتے ہیں اس میں جراثیم کو مارنے کی افادیت موجود ہو یا خمیر اور جراثیم کی سرگرمی پھل کے جلد ہضم بننے کا سبب ہو۔ آپ اس امکان کو مسترد نہیں کر سکتے۔‘
ڈاکٹر کیمبل کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ بندر شراب والے پھل کا انتخاب اس لیے کرتے ہوں کہ خمیرہ شدہ پھل سے انہیں خمیر کے بغیر پھل کے مقابلے میں زیادہ کیولریز ملتی ہوں اور اس طرح زیادہ توانائی۔
ڈاکٹر کیمبل نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ فیصلہ کرتے وقت کہ کون سا پھل کھایا جائے انسانوں کے آباؤ اجداد بھی اسی طرح متاثر ہوئے ہوں۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہو سکتا ہے کہ انسانوں کے آباؤ اجداد نے کھانے میں اس پھل کے انتخاب کو ترجیح دی ہو جس میں شراب موجود ہو۔ اس لیے کہ ایسے پھل میں زیادہ کیلوریز ہوتی ہیں۔ اسی طرح شراب کے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات اور سرور کا نتیجہ اس کے زیادہ استعمال اور کیلوریز کی شکل میں فائدے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘
بلاشبہ آج خمیر آور پھل کے گودے سے پیٹ بھرے بغیر شراب کی دستیابی کا مطلب ہے کہ اس کے زیادہ استعمال میں مبتلا ہو جانا آسان ہے۔
محققین کا استدلال ہے کہ موجودہ دور میں شراب کا زیادہ استعمال آباؤ اجداد کے دور میں شراب اور اس کی غذائی فوائد کے درمیان تعلق کا نتیجہ ہو سکتا ہے بلکہ شراب کے استعمال کے نقصانات سے نمٹنے میں معاشرے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’ذیابیطس کے مرض اور موٹاپے کی طرح زیادہ شراب پینے کو تصور کی حد تک غذائیت کی زیادتی کی بیماری کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔‘
© The Independent