پاکستانی سیاست میں ایک اور پاور پلے کا آغاز

قرائن بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں نئی حکومت کو عمران خان کی مزاحمتی اور جارحانہ سیاست کا سڑکوں پر، عدلیہ میں اور میڈیا پر سامنا کرنا پڑے گا۔

عمران خان 2018 کے انتخابات کے دوران ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے۔ بظاہر اب وہ ایک اور جارحانہ سیاسی مہم کا آغاز کرنے والے ہیں (اے ایف پی فائل)

پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے، لیکن آٹھ مارچ اور 10 اپریل کے درمیان 28 دنوں کے درمیان جن حالات سے وہ گزرے ان کی مثال نہیں ملتی۔

اس بظاہر سیٹ بیک کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت لڑائی ضرور ہارے ہیں، لیکن ایک طویل جنگ کا آغاز ہو رہا ہے، جس کے اختتام کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اصل فاتح کون ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ عمران خان حکومت کی بہت معاملات میں ناقص کارکردگی کے نتیجے میں عوام کی شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی تھی، لیکن آٹھ مارچ کی تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد ان پر ہونے والی تنقید نہ صرف ماند پڑ گئی بلکہ عمران خان کے مہنگائی سے لاچار ناراض حمایتی اپنے رہنما کے دفاع میں میدان میں آن کھڑے ہوئے ہیں۔

گذشتہ رات عمران خان کے حق میں جو ہزاروں لوگ عشا کی نماز کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں بشمول اسلام آباد، پنڈی، کراچی، لاہور، حیدرآباد وغیرہ میں احتجاج کے لیے سڑکوں پہ آئے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل قریب میں عمران خان نہ صرف سیاسی منظر نامے پر موجود رہیں گے اور اس سے بھی زیادہ اہم کہ عمران خان اگلے الیکشن میں زیادہ زور و شور سے سامنے آئیں گے۔

اس کے علاوہ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں حالیہ دور میں مزاحمتی سیاست کے ماہر عمران خان نئی حکومت کو چین سے چلنے کا موقع بھی دیں گے یا نہیں۔

لیکن ان سوالات سے پہلے کچھ اہم حقائق بھی ہیں۔ مثلاً ان میں عمران خان کا پاکستانی تاریخ کا پہلا تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برطرف ہونا سرِ فہرست ہے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کے اس سیاسی تجربے کا ناکام ہونا جس کے تحت وہ ایک عام تصور کے تحت عمران خان کو سپورٹ کر کے وزارت عظمیٰ کے عہدے تک لائے تھے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ کا ’نوازشریف نکالو‘ پروجیکٹ جو انہوں نے 2018 کے الیکشن میں بظاہر خوب خود اعتمادی سےلانچ کیا، اس پر 2021 کے آخر میں یوٹرن لینا شروع کیا اور 2022 کے شروع تک پورا یوٹرن لے لیا۔

پھر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کا سات اپریل کا وہ متفقہ فیصلہ بھی ہمارے سامنے ہے جس نے بظاہر نظریۂ ضرورت کے فلسفے کا سایہ بھی اپنے فیصلے پر نہیں پڑنے دیا۔ اسی نظریۂ ضرورت نے پاکستانی جمہوریت کو پچھلے 70 سالوں میں اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہونے دیا تھا۔ تو یہ سب بظاہر مثبت حقائق ہیں جو سب کو نظر آ رہے ہیں۔

لیکن ان حقائق کے ساتھ ساتھ عمران خان نے اپنے جلسوں، تقریروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے معاملات اٹھائے ہیں جو حقائق کو بہت سے لوگوں کے لیے اور خاص کر عمران خان کے اپنے حمایتیوں کے لیے بہت اہم ہیں۔

عمران خان کے اٹھائے ہوئے سوالات میں تین اہم ہیں: امریکہ میری حکومت کو برطرف کرنا چاہتا ہے۔ اس کے ثبوت میں وہ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر ڈاکٹر اسد کی جانب سے ایک خفیہ کیبل کا حوالہ دیتے ہیں جس میں امریکہ نے پاکستانی سفیر کو یہ صاف صاف بتا دیا تھا کہ پاکستان کی مشکلات جو امریکہ کے تعلقات سے جڑی ہیں تبھی ختم ہوں گی اگر عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اپنے عہدے سے ہٹا دیے جائیں۔

بقول عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے، اس مراسلے میں لکھا ہے کہ اس صورت میں امریکہ پاکستان کو معاف کر دے گا، لیکن اگر عمران خان اس تحریک کے نتیجے میں نہیں باہر نہیں ہوئے تو پھر پاکستان کو اور عمران خان کو خاص طور پر امریکہ تنہا کر دے گا۔

یہ مراسلہ ابھی تک پبلک میں نہیں آیا، لیکن عمران خان اسی کو بنیاد بنا کر بار بار سازش کا ذکر کرتے ہیں۔

دوسری حقیقت عمران خان پاکستان کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اپنی تقریروں میں بار بار دہراتے ہیں۔ ان کی بات کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کو ایک خوددار ملک ہونا چاہیے، اور یہ کہ امریکہ کی بالادستی پاکستانیوں کو نامنظور ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور پاکستانی سیاست دانوں نے خاص طور پر اقتدار سے نکلنے کے بعد امریکی سازشوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کے حوالے سے پاکستانی قوم مثبت سوچ نہیں رکھتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی حقیقت ہے جسے عمران خان بار بار دہراتے ہیں، لیکن اس حقیقت کے ساتھ ان کا قوم کو یہ باور کروانا کہ میرے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر پاکستان کو عزت اور خود داری نہیں دے سکا، پوری طرح حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔

عمران خان سے پہلے بھی کئی حکومتوں نے امریکہ کے ساتھ بہت سے معاملات پر خود مختاری کا رویہ اور پالیسی اختیار کی ہے۔ مثلاً شام ہو، عراق ہو یا پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ہو یا پھر پاکستان کی بھارت اور چین کے ساتھ تعلقات پر مبنی پالیسی ہو۔ ان معاملات پر پاکستان کی اکثر حکومتیں امریکی اثر سے آزاد نظر آئی ہیں۔

بہرحال بظاہر لوگوں میں اور خاص طور پر عمران خان کے سپورٹرز کے دلوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ عمران خان ہی پاکستان کی امریکی اثر سے آزادی کا کیس سب سے عمدگی سے لڑ رہے ہیں۔

پھر تیسری حقیقت عمران خان متحدہ اپوزیشن کے حوالے سے لوگوں کے سامنے دہراتے رہے ہیں کہ یہ سب مل کر مجھے اس لیے نکالنا چاہتے تھے کہ یہ اپنے خلاف نیب کے کیس بند کروانا چاہتے ہیں۔

یہ تو حقیقت ہے کہ اپوزیشن کے کئی لیڈروں کے خلاف خلاف نیب میں کیسز ہیں لیکن  اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان میں اکثر اوقات نیب کیسوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہ سیاسی رہنماؤں کے خلاف نیب کیسوں کو عدالتوں سے کچھ زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔

اس کے ساتھ ساتھ نیب کے طریقۂ کار اور ترجیحات پر بھی بہت تنقید ہوتی رہی ہے اور اس میں خود پی ٹی آئی کے بعض ارکان بھی شامل ہیں۔

لیکن بہرحال عمران خان کے حمایتی عمران خان کی کہی ہوئی باتوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور نیب کی کمزوریوں پر نہیں۔

بہرحال، اس بیانیے میں چاہے جتنی جان ہو، اس میں شک نہیں کہ عمران خان ایک بار پھر عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی جدوجہد پر نکل رہے ہیں۔

27 مارچ کو عمران کی کال پر اسلام آباد میں بہت بڑے جلسے کا منعقد ہونا، پھر دس اپریل کو عشا کے بعد میں بہت سے شہروں میں ہزاروں لوگوں کا نکلنا اس بات کی کسی حد تک تائید کرتا ہے۔

قرائن بتا رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں نئی حکومت کو عمران خان کی مزاحمتی اور جارحانہ سیاست کا سڑکوں پر، عدلیہ میں اور میڈیا پر سامنا کرنا پڑے گا۔

پاکستان کی سیاست اور پاور پلے میں ایک اور پیچیدہ باب شروع ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ