مردان: پرانے گانوں کے ہزاروں ریکارڈز جمع کرنے والے امتیاز

مردان کے محمد امتیاز نے تقریباً ’پانچ ہزار‘ پرانے بھارتی، پاکستانی اور پشتو گانوں کے ریکارڈ اکٹھے کر رکھے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے محمد امتیاز نے تقریباً ’پانچ ہزار‘ پرانے بھارتی، پاکستانی اور پشتو گانوں کے ریکارڈ اکٹھے کر رکھے ہیں۔

انہوں نے اپنے گھر میں اس نایاب کلیکشن کے لیے ایک کمرہ مختص کیا ہوا ہے جہاں وہ پرانے ریکارڈ پلیئر کی مدد سے انہیں سنتے ہیں۔

50 سالہ امتیاز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے والد کو 1952 سے گانوں کی کلیکشن کا شوق تھا۔ ’میں نے 1985 سے پرانی فلموں کے گانوں کا ریکارڈز جمع کرنے شروع کیے اور آج بھی یہ کام کر رہا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پرانے ریکارڈ لانے کے لیے وہ 1989 میں پہلی بار بھارت گئے۔ وہ اب تک 10 مرتبہ بھارت جا چکے ہیں اور آخری مرتبہ 2014 میں وہاں گئے تھے۔

اس دوران وہ دو، تین سو ریکارڈ جمع کر کے اپنی کلیکشن کا حصہ بناتے رہے۔

امتیاز نے کہا کہ ان کے پاس پانچ ہزار تک صرف 78 آر پی ایم کے ریکارڈ پڑے ہیں، جس میں ایک گانا ایک طرف اور دوسرا دوسری طرف ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کچھ پاکستانی اور پرانے زمانے کے صوبت خان اور مظفر کے پشتو زبان کے ریکارڈ بھی موجود ہیں۔

’مجھے جو ریکارڈ پسند آتا ہے میں اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے مجھے جتنا بھی خرچ کرنا پڑے کرتا ہوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اگر کسی کے گھر میں کوئی پرانا ریکارڈ پڑا ہو اور اسے چلانے والا کوئی نہ ہو تو وہ مجھے دے دیتا ہے۔

’پرانے اور نایاب ریکارڈ کی قیمت زیادہ ہوتی ہے جو اکثر 10 ہزار روپے تک پہنچ جاتی ہے۔‘

اس سوال پر کہ آیا پرانے ریکارڈ کو ریکارڈ پلیئر پر سننے والے اور بھی شوقین لوگ ہیں؟ تو امتیاز نے بتایا کہ پاکستان کے جتنے بھی بڑے شہر ہیں اس میں کافی شوقین لوگ مل جائیں گے۔

’کوئٹہ میں سب سے زیادہ شوقین ہیں، پھرکراچی اورلاہورکا نمبر آتا ہے، پشاورمیں جو شوقین لوگ تھے وہ تقریبا ًسارے فوت ہو گئے۔‘

انہوں نے کہا کہ مردان میں صرف میں ہوں اور صوابی میں ایک دوست ہے، کے پی میں ریکارڈز کے صرف دو، تین شوقین لوگ ہیں۔

امیتاز کے مطابق کوئٹہ میں کبھی کبھی پورے پاکستان سے ریکارڈز سننے کے شوقین افراد اکٹھے ہو جاتے ہیں، جس میں ہر شریک کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنی نایاب سے نایاب کلیکشن دکھائے۔

انہوں نے کہا کہ اب ریکارڈ پلیئر بہت مشکل سے ملتا ہے۔ ’میرے پاس والد صاحب کے امپورٹڈ ریکارڈ پلیئر پڑے ہوئے ہیں، جو کبھی خراب ہو جائیں تو میں خود ہی ٹھیک کر لیتا ہوں۔‘

آڈیو ریکارڈ کب سے بننا شروع ہوئے؟

ریکارڈ جمع کرنے کی شوقین امتیاز نے کہا کہ صرف دو گانوں والے 78 آرپی ایم سپیڈ سے چلنے والے ریکارڈ 1932 سے بھی پہلے بننا شروع ہوئے تھے۔

’اس کے بعد ای پی ریکارڈ، جس کا سائز چھوٹا اور دورانیہ چھ منٹ اور جو 45 آرپی ایم کی رفتار سے چلتا تھا اور جس میں چار گانے ریکارڈ ہوتے ہیں، وہ آئے۔

’پھر بڑے سائز کے ریکارڈ ایل پی بننا شروع ہوئے، جس کا دورانیہ 12 منٹ اور جو 38 آرپی ایم کی رفتارسے چلتا تھا اور جس میں چھ گانے ایک طرف اور چھ دوسری طرف ہوتے ہیں۔ یہ ریکارڈ 2010 میں بننا بند ہو گئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس سب سے زیادہ بھارتی ریکارڈ پڑے ہوئے ہیں، جس میں زیادہ تر لتا منگیشکر، محمد رفیع اور شمشاد بیگم کے گانے ہیں۔

’اس کے علاوہ ایل سہگل، پنکج ملک، سی ایچ آتما، کملا جریا، جوتیکا رائےاور ملکہ پکھراج کے کافی ریکارڈ میرے پاس ہیں۔‘

امتیاز کے مطابق ان کی اہلیہ بھی شوق سے ریکارڈ سنتی ہیں۔ ’جتنے بھی ریکارڈ کے شوقین ہیں ان سب کی بیویاں اس کے خلاف ہیں مگر میری بیوی کبھی کبھی بیٹھ جاتی ہے اور لتا منگیشکر کو سنتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جدید اور پرانی موسیقی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ’مجھے نئی مویسیقی میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ مجھے اس کی سمجھ آتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی