سری لنکا: پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک گیر کرفیو نافذ

حکومت مخالف ہزاروں مظاہرین نے رات کو کولمبو میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا اور پولیس نے ہجوم کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

سری لنکا میں حکومت مخالف اور حامی مظاہرین کے درمیان سری لنکا کے وزیراعظم مہندرا راجا پکسے کے گھر کے باہر 9 مئی 2022 کو تصادم ہوا جس کے بعد ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے (تصویر: اے ایف پی)

سری لنکا میں ایک غیر معمولی معاشی بحران کے سبب ہفتوں جاری رہنے والے مظاہروں میں بدترین تشدد سے پانچ افراد کے ہلاک اور 225 کے زخمی ہونے کے بعد منگل کو ملک گیر کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملک میں قانون فافذ کرنے کے لیے ہزاروں فوجی اور پولیس تعینات کر دی گئی ہے۔

پیر کو وزیراعظم مہندرا راجا پاکسے کے مستعفی ہونے بعد تقریبا 200 افراد زخمی بھی ہوئے لیکن اس سے بھی عوام کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔

حکومت مخالف ہزاروں مظاہرین نے رات کو کولمبو میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا اور پولیس نے ہجوم کو پیچھے دھکیلنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

مہندرا راجا پاکسے کو منگل کی علی الصبح فوج نے ایک کارروائی کے ذریعے وہاں سے نکالا۔

ایک اعلیٰ سکیورٹی عہدیدار نے فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ’علی الصبح کی کارروائی کے بعد فوج نے سابق وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ احاطے میں کم از کم 10 پٹرول بم پھینکے گئے تھے۔‘

سری لنکا میں کئی مہینوں سے جاری بلیک آؤٹ اور قلت کی وجہ سے راجا پاکسے خاندان کی اقتدار پر گرفت کمزور ہو گئی ہے۔ یہ 1948 میں آزاد ہونے کے بعد سری لنکا کا بدترین معاشی بحران ہے۔

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم  صدر گوتبیا راجا پاکسے سکیورٹی فورسز پر وسیع اختیارات اور کمان کے ساتھ اپنے عہدے پر موجود ہیں۔

کئی ہفتوں کے حکومت مخالف  پرامن مظاہروں کے بعد پیر کو اس وقت تشدد شروع ہوگیا جب مہندا راجاپاکسے کے حامیوں نے دیہی علاقوں سے دارالحکومت میں گھس کر مظاہرین پر ڈنڈوں سے حملہ کیا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک گواہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہمیں مارا گیا، میڈیا کو نشانہ بنایا گیا، خواتین اور بچوں کو مارا گیا۔‘

پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا اور کولمبو میں فوری کرفیو کا اعلان کیا، بعد میں اس فیصلے کو 22 ملین افراد والے پورے ملک پر لاگو کر دیا گیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ کرفیو بدھ کی صبح اٹھا لیا جائے گا، سرکاری اور نجی دفاتر سمیت دکانوں اور سکولوں کو بھی منگل کو بند رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔

امریکی سفیر جولی چنگ نے ٹویٹ کیا کہ: واشنگٹن نے ’پرامن مظاہرین کے خلاف تشدد‘ کی مذمت اور سری لنکا کی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے وہ تشدد کو بھڑکانے والے کسی بھی شخص کی گرفتاری اور قانونی چارہ جوئی سمیت مکمل تحقیقات کرے۔‘

گولی سے خودکشی

کرفیو کے باوجود حکومت مخالف مظاہرین نے حکومتی حامیوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لیے پولیس کی مخالفت کی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ ’حکمران جماعت کے قانون ساز امراکیرتی اتھوکورالا نے کولمبو کے باہر اس وقت دو افراد کو گولی مار دی جب وہ حکومت مخالف مظاہرین کے گھیرے میں آگئے تھے۔ ان کی فائرنگ کے نتیجے میں 27 سالہ شخص ہلاک ہو گیا۔

ایک پولیس عہدیدار نے ٹیلی فون کے ذریعے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اس کے بعد انہوں نے اپنے ریوالور سے اپنی جان لے لی۔‘

پولیس نے بتایا کہ اتھوکورالا کا باڈی گارڈ بھی جائے وقوعہ پر مردہ پایا گیا۔

پولیس نے مزید بتایا کہ حکمران جماعت کے ایک اور سیاستدان، جن کا نام نہیں لیا گیا نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔

مشتعل ہجوم نے ایک درجن سے زائد راجا پاکسے نواز سیاستدانوں کے گھروں اور کچھ گاڑیوں کو جلا دیا جبکہ کولمبو اور اس کے آس پاس حکومتی وفاداروں کے زیر استعمال بسوں اور ٹرکوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

ملک کے مختلف حصوں میں کئی راجاپاکسے خاندان کے گھروں کو نذر آتش کر دیا گیا جبکہ ان کے آبائی گاؤں میں ایک خاندانی عجائب گھر کو بھی توڑ دیا گیا۔

مرکزی کولمبو نیشنل ہسپتال کے ڈاکٹروں نے زخمی سرکاری حامیوں کو بچانے کے لیے مداخلت کی۔

ایک ڈاکٹر نے ایمرجنسی یونٹ کے داخلی راستے کو روکنے والے ہجوم پر چیختے ہوئے کہا کہ ’وہ قاتل ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے لیے ایسے مریض ہیں جن کا پہلے علاج کیا جانا چاہیے۔‘

اتحادی حکومت

76  سالہ مہندرا راجا پاکسے نے کہا تھا کہ وہ اتحادی حکومت کی راہ ہموار کرنے کے لیے مستعفی ہو رہے ہیں۔

لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ اپوزیشن اتحاد کی کسی انتظامیہ میں شامل ہوگی یا نہیں، اس سے قبل انہوں نے راجاپاکسے خاندان کے کسی بھی فرد کے ساتھ مل کر حکومت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سری لنکا کے سیاسی نظام کے تحت، حتیٰ کہ ایک نئی اتحادی حکومت آنے کے باوجود، صدر کو وزرا اور ججوں کی تقرری اور برطرفی کا اختیار حاصل ہے اور اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی نہیں ہو سکتی۔

ولسن سینٹر کے تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جب تک صدر راجا پاکسے عہدہ نہیں چھوڑتے اس وقت تک، کوئی بھی۔۔۔ چاہے سڑکوں پر موجود عوام ہوں یا اہم سیاسی سٹیک ہولڈر۔۔۔ مطمئن نہیں ہوگا۔‘

کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحت اور ترسیلات زر سے آنے والی اس ملک کی آمدن پر کاری ضرب پڑنے بعد یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے تھے۔ اس وبا سے قرض کی ادائیگی کے لیے درکار ملک کی غیرملکی کرنسی کے ذخائر کم ہوگئے۔

حکومت کو بہت سی درآمدات پر پابندی عائد کرنی پڑی جس کے نتیجے میں شدید قلت، افراط زر اور بجلی کی لوڈشیڈنگ طویل ہو گئی۔

اپریل میں سری لنکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے 51 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرض کے بعد دیوالیہ ہو رہا ہے۔

ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے اخیل بیری کے مطابق: ’یہ واضح نہیں ہے کہ مظاہروں کے پیش نظر صدر راجاپاکسے کا اگلا اقدام کیا ہوگا۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’عہدہ چھوڑنے سے قبل وہ اپنے بھائی کی طرح مستعفی ہونے کے علاوہ وہ ایک نگران حکومت مقرر کر سکتے ہیں۔۔۔ مظاہروں کو روکنے کے لیے فوج اور پولیس تعینات کر سکتے ہیں یا ان کے’فطری طور پر مرنے‘ کا انتظار کرنے کی کوشش کر سکتے ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ:’ جو کچھ بھی ہو، لیکن اگلی حکومت کو تباہ حال معیشت کی سدھارے کے لیے’غیر مقبول فیصلے‘ کرنے ہوں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے کسی بھی زیر بحث بیل آؤٹ کا مطلب ’زیادہ ٹیکس اور کم حکومتی اخراجات‘ہوں گے جو سیاسی طور پر خطرناک امتزاج ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا