سری لنکا: ملک گیر کرفیو میں نرمی، نئی کابینہ تشکیل

نئے وزیراعظم ماضی میں ملک کے چھ مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی کابینہ میں نئے ارکان شامل کیے ہیں۔

سری لنکن فوجی کولمبو میں 11 مئی 2022 کو بکتر بند گاڑیوں کے پاس علاقے کی سکیورٹی کے لیے تعینات ہیں (تصویر: اے ایف پی)

سری لنکا میں حکام نے ہفتے کو ملک گیر کرفیو میں 12 گھنٹے کی نرمی کر دی ہے جب کہ نئے وزیرِ اعظم رنیل وکرم سنگھے کی طرف سے انتظامیہ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد شدید اقتصادی بحران کے شکار ملک میں سیاسی استحکام کے تازہ آثار دکھائی دیے ہیں۔

کئی دن بعد ملک میں نافذ کرفیو میں ہفتے کو صبح چھ بجے سے شام چھ بجے تک نرمی کی گئی ہے۔ ایک ہفتے جاری رہنے والے پرامن احتجاجی مظاہرے پرتشدد ہونے کے بعد سری لنکا میں پیر کو 24 گھنٹے کے لیے کرفیو لگا دیا گیا تھا۔

احتجاجی مظاہرے معاشی بحران سے انتظامی سطح پر نمٹنے میں ناکامی کے بعد کیے جا رہے تھے۔ جمعرات اور جمعے کو ملک بھر میں نافذ کرفیو میں مختصر وقفہ کیا گیا تا کہ لوگ ضرورت کی اشیا خرید سکیں۔

نئے وزیراعظم ماضی میں ملک کے چھ مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی کابینہ میں نئے ارکان شامل کیے ہیں۔

انہوں نے اپنی کابینہ میں اپنے پیشرو مہندرا راجا پاکسے کی سیاسی جماعت سری لنکا پودوجانا پیرامونا (ایس ایل پی پی) سے کم از کم چار وزرا کو کابینہ میں شامل کیا ہے۔

اس بات کا امکان ہے کہ ان کے اس اقدام پر بہت سے لوگوں کی جانب سے برہمی کا اظہار کیا جائے گا کیوں کہ وہ اسے سیاسی جماعت کی عہدے سے علیحدگی تصور نہیں کریں گے۔

کابینہ کے دوسرے ارکان میں سیاسی جماعت ایس ایل پی پی جی ایل کے چیئرمین پیریئس شامل ہیں جنہوں نے گذشتہ ہفتے اس عہدے سے استعفے دے دیا تھا۔

اپنی سیاسی پارٹی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی کے اکلوتے قانون ساز وکرم سنگھے ملک میں اتحادی حکومت کے قیام کے ذریعے انتظامیہ چلانے کے لیے تیار ہیں۔ اقتدار سے الگ ہونے والے وزیر اعظم مہندرا راجا پاکسے کی سیاسی جماعت ایس ایل پی پی نے بھی نئی وزیر اعظم کی حمایت کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نئے وزیر اعظم وکرم سنگھے نے حلف اٹھانے کے تھوڑی دیر بعد کہا: ’ہمیں بحران کا سامنا ہے۔ ہمیں اس میں سے نکلنا ہو گا۔‘

اس سوال پر کہ ملک کو جس بحران کا سامنا ہے اس کا کوئی حل ہے؟ نئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’بالکل۔‘

تاہم نئے وزیراعظم کوئی مقبول انتخاب نہیں ہیں کیوں کہ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ وہ راجا پاکسے کے طاقتور سیاسی خاندان کو تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

ان پر 2015 سے 2019 تک اسی قسم کے الزامات لگائے گئے تھے۔ بدھ اور کیتھولک فرقوں کے پیشواؤں نے نے وکرم سنگھے کو وزیر اعظم بنانے پر اعتراض کیا ہے۔

سرکرہ بدھ مونک ریونڈ اوملپے سوبیتھا کے بقول: ’یہ فیصلہ ان لوگوں کی خواہشات کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے کیا گیا جو آج احتجاج کر رہے ہیں۔ اس فیصلے سے صرف احتجاجی مظاہرے ہی بدتر ہو سکتے ہیں۔‘

سری لنکا میں یہ حالات ملک کے مرکزی بینک کے گورنر نندالال ویراسنگھے کی طرف سے خبردار کیے جانے کے چند دن بعد پیدا ہوئے۔

انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں سیاسی استحکام کی جلد از جلد بحال نہ ہونے کی صورت میں معیشت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔

سری لنکا میں اپریل سے مظاہرے جاری ہیں جو گذشتہ ہفتے اس وقت پرتشدد ہو گئے جب اشیائے ضرورت کی خریداری میں ناکامی کے بعد شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ اس بدامنی میں کم از کم نو افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔

معیشت میں سرمائے کی فراہمی بند ہونے کے ساتھ ہی سری لنکا دیوالیہ ہونے اور ادائیگیوں میں ناکامی کے قریب ہے۔

حکام نے ان سات ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں عارضی پر روک دی ہیں جو اس سال کی جانی تھیں۔

مجموعی طور پر 51 ارب ڈالر کے موجودہ غیر ملکی قرضے سے باہر آنے کے لیے سری لنکا کے لیے تقریباً 25 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضے ادا کرنا لازمی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا