منکی پاکس کے کیسز بڑھنے کا امکان ہے: عالمی ادارہ صحت

متعدی بیماری منکی پاکس کے 92 مصدقہ اور 28 مشتبہ کیس برطانیہ، امریکہ، سپین اور اٹلی سمیت کئی ممالک میں رپورٹ ہو چکے ہیں اور عالمی ادارہ صحت کو خدشہ ہے کہ مزید کیس سامنے آئیں گے۔

جنیوا میں ڈبلیو ایچ او کے ہیڈکوارٹر کی سات دسمبر 2021 کو  لی گئی تصویر (اے ایف پی)

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ منکی پاکس کے کیسز مزید بڑھنے کا امکان ہے کیونکہ یہ بیماری ان ممالک میں پھییل رہی جہاں عام طور پر نہیں پائی جاتی ہے۔

تاریخی طور پر منکی پاکس کے انفیکشن صرف وسطی اور مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ لیکن گذشتہ چند ہفتوں میں برطانیہ، امریکہ، سپین، پرتگال، اٹلی، سویڈن اور کینیڈا میں بھی کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس کے متاثرین میں زیادہ تر وہ نوجوان شامل ہیں جنہوں نے اس سے قبل افریقہ کا سفر نہیں کیا۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ہفتے تک 12 رکن ممالک سے منکی پاکس کے 92 مصدقہ کیسز اور 28 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں ان ممالک کو مزید رہنمائی اور سفارشات دی جائیں گی کہ منکی پاکس کے پھیلاؤ کو کیسے کم کیا جائے۔

ایجنسی نے مزید کہا:’دستیاب معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان سے انسان میں منتقلی ان لوگوں کے درمیان ہو رہی ہے جن کے علامات والے کیسز کے ساتھ جسمانی رابطے ہیں۔‘

منکی پاکس ایک متعدی بیماری ہے جو آپ کو زیادہ بیمار نہیں کرتی۔ یہ قریبی رابطے سے پھیلتی ہے، لہذا اس پر آئسولیشن اور حفظان صحت جیسے اقدامات کے ذریعے نسبتاً آسانی سے قابو میں پایا جاسکتا ہے۔ یہ مغربی اور وسطی افریقہ کے کچھ حصوں میں عام ہے۔

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق منکی پاکس کی عام علامات میں بخار، سر درد، پٹھوں میں درد، کمر میں درد، لمف نوڈز میں سوجن، سردی اور تھکاوٹ شامل ہیں۔

اب تک اس وبا سے کوئی ہلاک نہیں ہوا ہے لیکن ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ یہ بیماری 10 میں سے ایک شخص کے لیے مہلک ہے۔

یورپین سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے تمام مشتبہ افراد کو آئسولیٹ کرنے اور ایسے لوگوں کو چیچک کی ویکسین لگانے کی سفارش کی ہے جو قریبی تعلقات میں آ سکتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق نائجیریا میں ہر سال تقریباً 3000 منکی پاکس کے کیسز ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے متعدی بیماری کے ایک ماہر ڈیوڈ ہیمن نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ یہ لوگوں میں جنسی تعلقات کی صورت میں پھیل چکا ہے اور جنسی طور پر پھیلنے والے انفیکشن کی طرح بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی دنیا بھر میں منتقلی کا امکان بڑھ گیا ہے۔‘

ہیمن نے کہا کہ ماہرین کی ایک بین الاقوامی کمیٹی نے اس بات کا جائزہ لینے کے لیے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ملاقات کی کہ اس آؤٹ بریک کے بارے میں کس تحقیق اور عوام کو کیا بتانے کی ضرورت ہے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کیا اس کے پھیلاؤ کی کوئی علامات ہیں، کن لوگوں کو سب سے زیادہ خطرہ ہے اور یہ کن طریقوں سے ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اجلاس ’حالات کی فوری ضرورت کے سبب‘ بلایا گیا تھا۔ یہ کمیٹی وہ گروپ نہیں ہے جو بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنے کی تجویز دے۔ 

انہوں نے کہا کہ قریبی تعلقات اس کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ تھا کیونکہ اس بیماری کے مخصوص زخم بہت متعدی ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مثال کے طور پر بیمار بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے والدین اور ہیلتھ ورکرز کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کچھ ممالک نے منکی پاکس کے مریضوں کا علاج کرنے والی ٹیموں کو چیچک سے بچاؤ کے ٹیکے لگانے شروع کر دیئے ہیں، جو کہ اسی قسم کا ایک وائرس ہے۔

موجودہ بہت سے کیسز کی نشاندہی جنسی صحت کے کلینکوں میں ہوئی ہے۔

یورپ میں موجود تھوڑے سے کیسز کی ابتدائی جینومک ترتیب سے پتہ چلتا ہے اس کی مماثلت 2018 میں برطانیہ، اسرائیل اور سنگاپور میں محدود پیمانے پر پھیلنے والے ایک سٹرین سے ہے۔

ہیمن نے کہا: ’حیاتیاتی طور پر قابل یقین‘ ہے کہ وائرس ان ممالک کے باہر ہے جہاں کا یہ مقامی ہے، لیکن کرونا وبا کی طرح  بڑے پیمانے پر نہیں پھیلا کہ جس کے نتیجے میں سماجی فاصلے اور سفری پابندیاں لگانی پڑیں۔‘

انہوں نے زور دے کر کہا کہ منکی پاکس کی وبا کرونا وائرس کے ابتدائی ایام سے بالکل نہیں ملتی کیونکہ یہ اتنی آسانی سے منتقل نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو شبہ ہے انہیں یہ بیماری لگ جائے گی یا جن میں ابھرے ہوئے دانے اور بخار جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں، انہیں دوسروں کے ساتھ قریبی تعلقات سے گریز کرنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا: ’ویکسینز دستیاب ہیں لیکن سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ آپ اپنی حفاظت کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا