دنیا بھر میں جنگلات کی مانیٹرنگ کرنے والی بین الاقوامی تنظیم گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق 2011 سے 2021 تک کی دہائی میں پاکستان میں تین ہزار ایکڑ سے زیادہ جنگلات میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر جنگلات خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں ہیں۔
گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق پاکستان میں 31 مئی 2021 سے لے کر 23 مئی 2022 تک آگ کے 1921 واقعات رپورٹ ہوئے۔ یہ تنظیم بھی اتنی زیادہ تعداد میں آگ لگنے کے واقعات کے حوالے سے کافی پریشان ہے۔
اس تنظیم کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سنہ 2000 سے 2010 کی دہائی کے مقابلے میں گذشتہ دہائی میں جنگل کا آدھا ایکڑ ختم ہو گیا ہے۔ اور سب سے زیادہ نقصان ژوب اور نصیر آباد میں ہوا۔
اس کےعلاوہ آگ کے 25 واقعات پیش آئے جن میں سے 28 فیصد ’ہائی کانفیڈنس الرٹ‘ تھے یعنی ریڈ فلیگ جس پر اگلے ایک یا دو دن میں ایکشن لینا ضروری ہے۔
پاکستان میں آگ لگنے کا سیزن عام طور پر جون سے اگست تک ہوتا ہے لیکن حکام کے مطابق اس سال گرمی کے باعث یہ سیزن جلد شروع ہو گیا۔ اور اسی وجہ سے حکام کے لیے ملک بھر میں آگ لگنے کے واقعات سرپرائز تھے۔
اقوام متحدہ کے ادارے انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمنٹ چینج (آئی پی سی سی) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث سیلاب اور خشک سالی میں اضافہ اور اس کے ساتھ گرمی میں اضافے سے خوراک کی فراہمی میں کمی اور قیمتوں اضافہ ہو گا اور اس وجہ سے جنوبی اور جنوب مشرق ایشیا میں انڈر نورشمنٹ میں اضافہ ہو گا۔
آئی پی سی سی کے مطابق گلوبل وارمنگ اتنی تیزی سے ہو رہی ہے کہ ہم ایک اعشاریہ پانچ ڈگری کے درجہ حرارت میں اضافے کی حد کو 2030 تک عبور کر جائیں گے۔
ضلع شیرانی میں کئی کلومیٹر پر محیط جنگلات میں زیتون، پلوس اور چلغوزوں کے لاکھوں درخت موجود ہیں اور آتشزدگی کی وجہ سے یہاں موجود حیوانات کو خطرات لاحق ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک اندازے کے مطابق شیرانی جنگل میں دس لاکھ چلغوزے کے درخت ہیں اور ایک درخت کی مالیت پچیس سے تیس ہزار روپے ہے۔ ان درختوں سے پونے سات سو میٹرک ٹن چلغوزے سالانہ ہوتے تھے جن کی ایک اندازے کے مطابق مالیت دو اعشاریہ چھ بلین ڈالر ہے۔ یہ چلغوزے چین، دبئی اور فرانس بھیجے جاتے ہیں۔
آگ سے ہونے والے نقصان کا ایک تخمینہ کم از کم پانچ کروڑ روپے ہے۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ جو درخت آگ میں جل گئے ان کے دوبارہ اگنے میں پچاس سال لگیں گے۔
موسمی تبدیلی نے موسم کو کتنا تبدیل کیا ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سنہ 2020 میں ژوب کا درجہ حرارت 33 ڈگری سینٹی گریڈ تھا لیکن گذشتہ سال یہاں درجہ حرارت بڑھ کر 43 ڈگری تک چلا گیا۔
آج کل کے شدید موسمی واقعات کو دیکھیں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے اور اس کا اثر مستقبل میں کیا ہو گا۔
پاکستانی محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ اس سال مارچ کا مہینہ 1961 کے بعد گرم ترین مارچ ریکارڈ کیا گیا۔ اسی طرح بھارت میں بھی رواں برس مارچ کا مہینہ گذشتہ 122 سالوں میں سب سے زیادہ گرم ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اور اسی لیے سائنس دان اس سال کو ’بہار کے بغیر کا سال‘ کہہ رہے ہیں۔
موسمی تبدیلی کے حوالے سے عالمی ماہرین پہلے ہی بتا چکے ہیں اور موسمی تبدیلی کے باعث پاکستان میں درجہ حرارت بڑھتے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سیلاب، قحط اور آگ جیسی آفات میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال 23 مئی سے نو جون تک جنگلات میں آگ کے 210 واقعات پیش آئے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ موسمی تبدیلی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ حکومت موسمی تبدیلی اور اس کے نتائج کے حوالے سے فوری اقدامات اٹھائے اور ایسے اقدامات کرے جس سے ماحول اور انسان دونوں ہی کو محفوظ رکھا جائے۔
تازہ رپورٹوں سے صاف ظاہر ہے کہ موسمی تبدیلی سے روزگار اور صحت دونوں ہی پر اثر پڑے گا۔ اس وقت بھی 39 فیصد آبادی کثیر جہتی غربت میں مبتلا ہے اور موسمی تبدیلی کے باعث روزگار جانے سے ان کی زندگی اور صحت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا۔